کتاب: جہاد کے مسائل - صفحہ 52
صورت حال سے آگاہ کردیا جنگ کا موقع آیاتو حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !اب ہم کیاکریں؟‘‘ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا’’ہم قریش سے کئے گئے معاہدے کو پوراکریں گے اور اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کریں گے۔‘‘چنانچہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ خواہش کے باوجود جنگ بدر میں شریک نہ ہوسکے۔ [1] حقیقت یہ ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ان اعلٰی و ارفع تعلیمات اور ذاتی حسن عمل نے عہد شکنی دھوکہ دہی ، خون ریزی ، وحشت بربربیت ، درندگی اور خونخواری کی حامل جنگوں کا اصولاً خاتمہ کر کے جنگ کو ایک مقدس مشن کا مقام دے دیا اور یہ مقدس مشن جہاد فی سبیل اللہ مسلمانوں کے لیے اسی طرح کی ایک عبادت بنا دیا گیا جیسی نماز ، روزہ ، حج ، زکاۃ اور صدقات وغیرہ عبادت ہیں ۔ جنگ احد میں دشمنوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا نچلا ایک دانت مبارک توڑ دیا ہونٹ زخمی ہو کیا خود کی دو کڑیاں چہرے کے اندر دھنس گئیں اور چہرہ اقدس خون آلود ہو گیا ۔ میدان احد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانثار ساتھیوں کی لاشوں سے اٹا پڑا تھا لاشوں کا مثلہ کیا کیا تھا ۔ میدان جنگ کا یہ نقشہ دیکھ کر کسی بہی فوج کے سپہ سالار کی جو ذہنی کیفیت ہو سکتی ہے اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں چنانچہ لمحہ بھر کے لیے انسانی جذبات غالب آگئے اور فرمایا ’’ اس قوم پر اللہ کا سخت عذاب ہو جس نے اپنے پیغمبر کا چہرہ خون آلود کر دیا ۔‘‘ لیکن فوراً مقدس مشن کے علمبردار رحمۃ اللعالمین محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بددعا کو اس دعاء کے ساتھ بدل دیا ’’ اے اللہ ! میری قوم کو ہدایت دے کہ وہ جانتی نہیں [2] ‘‘مخلوق خدا کے لیے رحم و کرم کی یہ بارش نبی نوع انسان کے لیے عفو و درگذر کا یہ فیضان اور اپنے قاتلوں اور جانی دشمنوں کے لیے ہدایت اور نیکی کی یہ دعائیں اس بات کا واضح اعلان ہیں کہ مطلوب انسانوں کی ہلاکت اور بربادی نہیں بلکہ ہدایت اور فلاح ہے ۔ سیرت طیبہ کا یہ پہلو عظمت کردار کی ایسی رفعتوں اور بلندیوں کا حامل ہے کہ دنیا کے بڑے بڑے مصلحین اور فاتحین پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی اس شان کریمی کے آگے اوندھے منہ پڑے نظر آتے ہیں حق بات یہ ہے کہ بنی نوع انسان پر پیغمبر اسلام کا یہ احسان عظیم ہے جس کے بارسے بنی نوع انسان تاقیامت سبکدوش نہیں ہو سکتی ۔ اسلام نے یہ پاکیزہ اور اعلیٰ و ارفع تعلیمات اس وقت دیں جب اپنے وقت کی مہذب ترین اقوام ..... روز و ایران ...... جنگوں میں وحشی جانوروں سے برتر وحشت کا مظاہرہ کر رہی تھیں۔ 540ء میں نوشیروان نے شام پر چڑھائی کی تو اس کے دار الحکومت انطاکیہ کی اینٹ سے اینٹ بجادی باشندوں کا قتل عام کیا ، عمارتوں کو مسمار کیا جب اس سے بھی تسکین نہ ہوئی تو شہر میں آگ
[1] حیات صحابہ کے درخشاں پہلو ، حصہ دوم ص 137 [2] الرحیق المختوم ، ص 421