کتاب: جہاد کے مسائل - صفحہ 50
بن جائے اور ان کی عزتوں سے کھیلنے لگے،کسی حاکم کو یہ حق نہیں پہنچتاکہ وہ لوگوں کا شہنشاہ بن جائے اور رعایا کے حقوق کو پامال کرنے لگے گویابنیادی طور پر دین اسلام امن،سلامتی،مساوات،عدل وانصاف اور اخوت کا مذہب ہے اور ظلم وزیادتی ،جبروتشدد،بد امنی ودہشت گردی،خون ریزی،اور غارت گری کا شدید دشمن ہے لہٰذا دین اسلام کو غالب کرنے کا مطلب امن وسلامتی،عدل وانصاف،مساوات اور اخوت کا قیام اور ظلم وزیادتی ،جبروتشدد،بدامنی،دہشت گردی،خون ریزی اور غارت گری کا خاتمہ اور استیصال ہے۔ بعض دیگر جنگی امور کا تقابلی جائزہ: اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اس لئے اس نے مسلمانوں کو زندگی کے ہر معاملے میں ہدایات دی ہیں جہاد فی سبیل اللہ کے بارے میں مسلمانوں کو ایسے قواعد وضوابط کا پابند بنایاگیاہے جوکہ: اولاً قیامت تک کے لئے نافذ العمل ہیں۔ ثانیاً ان قواعدوضوابط میں کسی بڑی سے بڑی اتھارٹی کو تغیروتبدل کا اختیار نہیں ہے۔ ثالثاً ان قواعدوضوابط کا ہر وہ شخص پابندہے جو اپنے آپ کو مسلمان کہلاتاہے اگر کوئی فاتح یا سپہ سالار ان قواعد وضوابط پردوران جہاد عمل نہیں کرتاتو شریعت کی نگاہ میں وہ قانون شکن اور مجرم ہے جس کی اللہ کے ہاں روز قیامت باز پرس ہوگی۔اس کے مقابلے میں مغربی اقوام کے بارے میں یہ حقائق تاریخ کے ریکارڈ میں محفوظ ہے کہ: اولاً سترہویں صدی عیسوی کی ابتداء میں مغربی اقوام کے ہاں جنگ نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔[1] ثانیاً مغربی اقوام کے وضع کردہ قوانین جنگ ان کے اپنے مفادات کے تابع ہی وضع کئے گئے ہیں جن میں حسب ضرورت نہ صرف تغیروتبدل ہوتارہتاہے بلکہ قانون بنانے والے جب چاہتے ہیں اپنے ہی قانون کی دھجیاں اڑادیتے ہیں۔[2]
[1] تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو،الجہاد فی الاسلام باب ہفتم’’جنگ تہذیب میں۔‘‘ [2] پہلی مرتبہ1868ء میں جینوااور دوسری مرتبہ1874ء میں بروسلز کانفرنس میں یورپ کی مہذب ترین حکومتوںمیں یہ طے پایاکہ جنگ میں آتش گیر مادہ اور زہریلی گیس استعمال نہیں کی جائے گی۔لیکن جنگ عظیم (1939ء تا1945ء)میں ہٹلر نے ساٹھ لاکھ انسان گیس چیمبروں کے ذریعے ہلاک کرکے اس قانون کے پرخچے اڑا دیئے۔اگست1864ء میں یورپ کی تمام حکومتوں نے ایک سمجھوتے پر دستخط کئے جس کے مطابق فوجی ہسپتالوںکا عملہ غیر جانبدارقرار دیاگیااور بیماروں اور زخمیوں کے علاج میں مزاحمت کو ناجائز قرار دیاگیالیکن جنگ عظیم اول(1914ء تا1918ء)میں فریقین نے ایک دوسرے کے ہسپتالی جہاز بڑی آزادی سے غرق کرکے اس قانون کی دھجیاں اڑادیں۔(حوالہ سابق)