کتاب: جہاد کے مسائل - صفحہ 45
3۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دوران دعوت میں جن حالات سے سابقہ پیش آرہاتھاان سے بعض اوقات آپ صلی اللہ علیہ وسلم پریشان ہوجاتے کہ لوگ ایمان کیوں نہیں لاتے؟اس پر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بارباریہ وضاحت ارشاد فرمائی: ﴿ وَاِنْ تَوَلَّوْ فَاِنَّمَا عَلََیْکَ الْبَلاَغُ ﴾ ’’اگر لوگ روگردانی کریں تو تم پر صرف پیغام پہنچادینے کی ذمہ داری ہے۔‘‘(سورہ آل عمران، آیت نمبر20)یعنی اگر لوگ ایمان نہیں لاتے تو آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں اپ کی ذمہ داری صرف پہنچادیناہے۔زبردستی منوانا نہیں۔اس مضمون کی دوسری آیات میں سے چند ایک ہیں (99:5)،(35:16)،(48:42)،(22-21:88) جہاد کے احکام دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:’’کافروں سے جنگ کروحتی کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں اور چھوٹے بن کررہیں۔‘‘[1] (سورہ توبہ،آیت نمبر29) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایاکافروں سے جنگ کروحتی کہ وہ مسلمان ہوجائیں بلکہ یہ فرمایاہے کہ کافر جزیہ اداکرنے پر راضی ہو جائیں تو جنگ بند کردو۔جزیہ کا قانون بذات خود اس بات کا ثبوت ہے کہ اسلام زبردستی کسی کو مسلمان نہیں بنانا چاہتا۔سورہ بقرہ میں اللہ تعالیٰ نے جہاد کا حکم دیتے ہوئے فرمایاہے:’’کافروں سے جنگ کرو حتی کہ فتنہ باقی نہ رہے۔‘‘(سورہ بقرہ،آیت نمبر193) یہاں بھی اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایاکافروں سے اس وقت تک جنگ کروجب تک وہ مسلمان نہیں ہوجاتے بلکہ مطلوب یہ ہے کہ دین اسلام کو غالب اور نافذ کرنے میں دشمنان اسلام کی کھڑی کی ہوئی رکاوٹیں دور کی جائیں۔ قرآنی احکام کے بعد سنت مطہرہ کی چند مثالیں ملاحظہ ہوں: 1۔ غزوہ بدرمیں کافروں کے ستر آدمی قید ہوئے جنہیں رہا کرنے کے لئے دو شرطیں مقرر کی گئی تھیں پہلی یہ کہ فدیہ ادا کیاجائے،دوسری یہ کہ جو فدیہ نہ دے سکے وہ دس دس بچوں کولکھنا پڑھنا سکھادے چند آدمیوں کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر مشروط پر بطور احسان بھی رہا فرمایا۔اگر زبردستی اسلام منوانا مطلوب ہوتا تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے یہی شرط مقرر فرماتے کہ جو شخص مسلمان ہوجائے اسے رہا کردیا جائے گا۔ 2۔ غزوہ بنو نضیر میں یہودیوں پر مکمل غلبہ حاصل کرنے کے بعد ازراہ عفووکرم ان کی جان بخشی کی اور
[1] جزیہ سے مراد وہ ٹیکس ہے جو اسلامی حکومت غیر مسلموںسے وصول کرتی ہے جس کے بدلے میں اسلامی حکومت ان کے جان ومال کی حفاظت کرتی ہے جزیہ ادا کرنے والے غیر مسلموں کو اس بات کی مکمل آزادی ہوتی ہے کہ وہ اسلامی حکومت کے قوانین کی پابندی کرتے ہوئے اپنے عقیدہ اور مذہب پر عمل کرتے رہیںلیکن انہیںاپنے عقیدے اور مذہب کی اشاعت کا حق حاصل نہیںہوتا۔