کتاب: جہاد کے مسائل - صفحہ 43
اس کی دو بیٹیوں کو قتل کیااور ماں کو بیٹیوں کا خون پلانے پر مجبور کردیا۔بعد میں’’رومہ‘‘ کو بھی قتل کردیاگیا۔بشپ پال کی ہڈیاں قبرسے نکال کر جلائیں،گڑھے کھود کران میں اگ جلوائی جن میں مردوں،عورتوں،بچوں اور بوڑھوں سب کو پھینکوادیا۔مجموعی طور پر20ہزارسے40ہزار تک زندہ انسانوں کو آگ میں جلادیااس واقعہ کا تذکرہ قرآن مجید میں سورہ بروج میں ان الفاظ کے ساتھ کیاگیاہے: ﴿ وَمَا نَقَمُوْا مِنْہُمْ اِلاَّ اَنْ یُّوْمِنُوْا بِاللّٰہِ الْعَزِیْزِ الْحَمِیْدِ ، ﴾ ’’اہل ایمان سے ان کی دشمنی اس کے سوا کسی وجہ سے نہ تھی کہ وہ اس اللہ پر ایمان لائے تھے جو زبردست اور اپنی ذات میں اپ محمودہے۔‘‘(سورہ البروج،آیت نمبر8) [1] 2 303ء میں شہنشاہ روم ڈریوکلیٹیان نے اپنی مملکت سے عیسائیت ختم کرنے کے لئے حکم جاری کیا کہ تمام کلیسا مسمار کردئیے جائیں،انجیلیں جلادی جائیں،کلیساؤں کے اوقاف ضبط کرلئے جائیں جو شخص مسیحی مذہب پر اصرار کرے اسے قتل کردیا جائے اس حکم کی باوجودجن عیسائیوں نے عیسائیت ترک کرنے سے انکار کیاان کے بدن زخمی کرکے ان پر سرکہ اور نمک ڈالا جاتابعد میں ان کی بوٹی بوٹی کاٹی جاتی بعض اوقات ان کو عبادت گاہوں میں بند کرکے آگ لگادی جاتی ،زیادہ لطف اٹھانے کے لئے ایک ایک عیسائی کوپکڑ کر دہکتے ہوئے انگاروں پر لٹادیاجاتایا لوہے کے کانٹے اس کی بدن میں بھونکے جاتے۔[2] 3 1492ء میں سپین سے مسلمانوں کی حکومت ختم ہوئی تو صرف آٹھ برس کی قلیل مدت میں وہاں کی عیسائی حکومت نے مسلمانوں سے اسلام چھڑانے کی مہم شروع کردی۔سپین کے ساڑھے تین لاکھ مسلمانوں کو ایک مذہبی عدالت کے سامنے پیش کیاگیا۔عدالت نے28ہزار،5سو40 مسلمانوں کو موت کی سزا سنائی اور بارہ ہزار مسلمانوں کو زندہ جلانے کا حکم دیا۔مسلمانوں کی سینکڑوں لائبریریاں جن میں لاکھوں کتابیں نذر آتش کردیں۔بالاخر1610ء میں تمام مسلمانوں کو ترک وطن کا حکم دے دیاگیا۔ڈیڑھ لاکھ عربوں کا ایک قافلہ بندرگاہ کی طرف جارہا تھاکہ بلیڈا نامی ایک پادری نے غنڈوں کو ساتھ ملا کر قافلہ پر حملہ کردیااور ایک لاکھ مسلمان قتل کرڈالے اس کے بعد مسلمانوں کے گھروں،گلیوں اور بازاروں میں قاتلانہ حملے شروع ہوگئے حتی کہ 1630ء تک ایک بھی مسلمان سپین میں باقی نہ رہا۔[3] 4 مارچ،1992ء میں بوسیناہرزگوویناکے شہریوں نے ایک ریفرنڈم میں 99اعشاریہ4فیصد کثرت سے
[1] تفہیم القرآن ،جلد ششم،سورہ بروج،حاشیہ نمبر 4 [2] الجہاد فی الاسلام ،از سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ علیہ ،ص 448 [3] یورپ کے اسلام پر احسان ازڈاکٹرغلام جیلانی برق،ص 88-87