کتاب: جہاد کے مسائل - صفحہ 42
تو انہیں ان کے جائدادوں اور ان کے اموال سے اسی طرح محروم کرسکتے تھے جس طرح انہوں نے مسلمانوں کو کیاتھالیکن تاریخ انسانی میں حسن عمل اور عظمت کردار کی ایسی ایک بھی مثال نہیں ملتی کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کفار کی جائدادوں اور اموال کو چھوڑ کراپنی چھینی ہوئی جائیداداور اموال کی واپسی کا مطالبہ کیاتورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’جو اموال اور جائیدادیں اللہ کے لئے چھوڑ چکے ہو انہیں واپس نہ لو۔‘‘[1]صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے اس منفرد اور تابناک فرمان کے سامنے فوراً سرتسلیم خم کردیا۔کیالوٹ مار کرنے،غنائم حاصل کرنے،دوسروں کی تجارت پر قبضہ کرنے والے،دولت سمیٹنے والے ،جاہ پسنداور اقتدارپرست فاتحین کا طرز ِعمل ایسا ہی ہوتاہے؟
2 سقوط مکہ کے بعد حنین فتح ہواتو مال غنیمت میں24ہزار اونٹ،40ہزار بکریاں اور 6ہزار کلو گرام چاندی حاصل ہوئی اسیران جنگ کی تعداد6ہزار تھی۔اموال غنیمت تقسیم کرنے سے قبل رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پورے دو ہفتے انتظار کیاتاکہ اگر کوئی وفدتائب ہوکر گفت وشنید کے لئے آئے تو تمام اموال غنیمت واپس کردیئے جائیں جب کوئی وفد نہ آیاتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سارے اموال لشکر اسلام اس طرح تقسیم فرمائے کہ صرف ایک چادر باقی رہ گئی۔اس کی بعد لوگوں کو مخاطب کرکے فرمایا ’’اس ذات کی قسم!جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر میرے پاس تہامہ کے درختوں کی تعداد کے برابرمویشی ہوتے تو میں انہیں بھی تمہارے درمیان تقسیم کردیتااور تم مجھے ایسا کرتے ہوئے نہ بخیل پاتے نہ بزدل نہ جھوٹا۔کوئی ذی ہوش آدمی یہ تصور کرسکتاہے کہ تاریخ عالم میں ایسی زریں مثالیں پیش کرنے والا فاتح جس مذہب کی تعلیم لے کر آیاہے ہو حصول غنائم کے لئے،دولت دنیا سمیٹنے کے لئے،جلب زر کے لئے اور دوسروں کی وسائل معیشت وتجارت پر قبضہ کرنے کے لئے قتال اور خون ریزی کی اجازت دے سکتاہے؟ہرگز نہیں!
ب۔ مذہبی جبر:
قتال خون ریزی اور جنگ وجدال کا دوسرا بڑامحرکہ مذہبی جبر رہاہے۔چند مثالیں ملاحظہ ہوں:
1 523ء میں یمن کے یہودی بادشاہ ذونواس نے عیسائیوں کے مرکز نجران پر حملہ کیا تاکہ وہاں سے عیسائیت کا خاتمہ کرکے لوگوں کو یہودیت اختیار کرنے پر مجبور کرے۔عیسائیوں نے یہودیت اختیار کرنے سے انکار کردیاتو ذونواس نے حاکم نجران’’حارثہ‘‘کو قتل کردیا۔اس کی بیوی’’رومہ‘‘ کے سامنے
[1] غزوات مقدس ازمحمد عنایت اللہ وارثی ،ص 35