کتاب: جہاد کے مسائل - صفحہ 37
چھائی ہوئی تھی کہ انہیں کوئی روکنے والا نہ تھا۔ طارق بن زیاد رحمۃ اللہ علیہ جدھر رخ کرتا فتح و کامرانی ہمرکاب ہوتی۔ اندلسی خود پیش قدمی کرکے صلح کرتے ۔ طارق آگے آگے علاقے فتح کرتے جاتے اور موسیٰ بن نصیر رحمۃ اللہ علیہ پیچھے پیچھے صلح ناموں اور معاہدوں کی تصدیق کرتا جاتا۔[1] تاریخ اسلام اس بات کی شاہد ہے کہ کفار کے مقابلے میں مسلمانوں کو تعداد اور سامان جنگ کی برتری کبھی حاصل نہیں ہوسکی۔ (الا ماشاء اللہ) مسلمانوں نے ہمیشہ اپنے جذبہ ایمان کی بنیاد پر میدان جنگ میں ایسے ایسے محیر العقول کارنامے سرانجام دیئے کہ دشمنوں کی کثرت تعداد اور کثیر سامان جنگ دھرے کا دھرا رہ گیا۔ ہمیں یہ حقیقت ہر گز فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ مسلمان کا اصل ہتھیار اس کا ایمان ہے۔ بم اور میزائل نہیں۔ بم اور میزائل وہ اسلحہ ہے جو پڑا پڑا ناکارہ ہو سکتا ہے جسے دشمن چھین سکتا ہے یا جسے دشمن تباہ کرسکتا ہے ، لیکن ایمان وہ اسلحہ ہے جو نہ پرانا ہوتا ہے نہ اسے دشمن چھین سکتا ہے نہ اسے تباہ کرسکتا ہے، لہٰذا سامان جنگ اور اسلحہ کی تیاری اور حصول دینی ، ملی اور قومی غیرت کے تحفظ کے ساتھ ہوتو بالکل بجا اور درست، لیکن سامان جنگ اور اسلحہ کا ایسا حصول جس کے نتیجہ میں مسلمانوں کی اسلامی اقدار ، اسلامی روایات ، اور اسلامی شعائر پامال ہوں یا مسلمانوں کے قومی وجود کو خطرہ ہو یا مسلمانوں کے دین اور ایمان پر ڈاکہ ڈالا جارہا ہو ، تو یہ سراسر خسارے کا سودا ہے۔ایمان کی قوت سلامت ہو تو قلت تعداد اور قلت سامان مسلمانوں کو ہر گزنقصان نہیں پہنچا سکتی، لیکن ایمان سلامت نہ ہو تو اسلحہ کے کروڑوں ٹن بھی اسے فتح سے ہم کنار نہیں کرسکتے۔ مسلمانوں کی فتح صرف اللہ پر ایمان اور توکل کے ساتھ مشروط ہے۔ تاریخ کی گواہی بھی یہی ہے اور اللہ کا قانون بھی: ﴿ وَلاَ تَہِنُوْا وَ لاَ تَحْزَنُوْا وَ اَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِیْنَ ،﴾ ’’دل شکستہ نہ ہو، غم نہ کرو، اگر تم مومن ہو تو تمہی غالب رہو گے۔‘‘ (سورہ آل عمران، آیت نمبر 139) ٭٭٭ قارئین کرام ! جہاد افغانستان کے بعد عالمی سطح پر دشمنان اسلام جس طرح جہاد کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کررہے ہیں او رمجاہدین کے خلاف نفرت انگیز پروپیگنڈہ کا تابہ فلک شورو غوغا برپا کیا جارہاہے اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ اہل علم اس بے بنیاد اور گمراہ کن پروپیگنڈہ کا موثر انداز میں جواب دیں ہم نے اپنی بساط کے مطابق اقوام عالم کی جنگوں کا غزوات مقدس سے تقابل کرکے جہاد
[1] تاریخ اسلام ، حصہ دوم ، ص 178