کتاب: جہاد کے مسائل - صفحہ 36
ورنہ تعداد اور سازوسامان کے اعتبار سے قیصر و کسریٰ مسلمانوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ طاقتور تھے ۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد مبارک کا ہی یہ واقعہ ہے یرموک کے میدان میں مسلمانوں اور رومیوں میں خون ریز معرکہ ہوا جس میں مسلمانوں کی تعداد صرف تیس ہزار اور رومیوں کی تعداد دو لاکھ تھی۔ مسلمانوں میں ایک ہزار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی تھے جن میں سے ایک سو بدری صحابہ تھے۔ مسلمان بڑی بے جگری سے لڑے، رومیوں کے ایک لاکھ سپاہی مارے گئے ۔ مسلمانوں کے صرف تین ہزار سپاہی شہید ہوئے اور مسلمانوں کو ایسی عظیم الشان فتح حاصل ہوئی کہ قیصر مایوس ہو کر شام سے قسطنطیہ چلا گیا۔[1] 92ہجری میں جنرل طارق بن زیاد رحمۃ اللہ علیہ اندلس میں جبرالٹر کے مقام پر اترے وہاں کے حاکم تھیوڈو میر سے مقابلہ ہوا جس میں تھیوڈو میر کو ایسی شکست ہوئی کہ اس نے خوف زدہ ہو کر شاہ اندلس راڈرک کو لکھا کہ ہمارے ملک پر ایسے آدمیوں نے حملہ کیا ہے نہ ان کا وطن معلوم ہے نہ ان کی اصلیت کہ کہاں سے آئے ہیں زمین سے نکلے ہیں یا آسمان سے اترے ہیں۔ چنانچہ راڈرک ایک لاکھ کی فوج کے ساتھ مسلمانوں کا مقابلہ کرنے کے لئے خود آیا۔ اسلامی لشکر کی تعداد صرف بارہ ہزار تھی۔ طارق بن زیاد رحمۃ اللہ علیہ نے جنگ سے پہلے مختصر خطا ب کیا۔ ’’ امابعد ! لوگوں ! میدان جنگ سے اب کوئی مفر کی صورت نہیں، آگے دشمن ہے پیچھے دریا۔ اللہ کی قسم ! صرف پامردی اور استقلال ہی میں نجات ہے اگر یہ دونوں باتیں موجود ہیں تو قلت تعداد سے کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا اور بزدلی ، کاہلی ، سستی ، نامردی ، باہمی اختلاف اورغرور کے ساتھ کثرت تعداد کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی ، خبردار ! ذلت پر راضی نہ ہونا اور اپنے آپ کو دشمن کے حوالے نہ کرنا ۔ اللہ تعالیٰ نے مشقت ، جفاکشی کے ذریعے دنیا میں تمہارے لئے جو عزت و شرف اور راحت اور آخرت میں شہادت کا جو ثواب لکھاہے اس کی طرف بڑھو، اللہ کی پناہ اورحمایت کے باوجود اگر تم ذلت پر راضی ہوگئے تو بڑے گھاٹے میں رہو گے۔ دوسرے مسلمان تمہیں الگ برے الفاظ سے یاد کریں گے جیسے ہی میں حملہ کروں تم بھی حملہ کردینا ۔‘‘ اجنبی زبان ، اجنبی ماحول اور اجنبی جغرافیہ کے باو جود جب مقابلہ ہوا تو راڈرک نے شکست فاش کھائی اور ایسا لاپتہ ہوا کہ تاریخ آج تک اس کا انجام بتانے سے قاصر ہے۔ راڈرک کی شکست کے بعد مسلمان اندلس کے تمام اہم صوبوں قرطبہ ، طلیطلہ ، تدمیر، قرمونہ ، اشبیلیہ اور بطلیوس کو مسخر کرتے ہوئے فرانس کی سرحد دریائے روڈنہ تک پہنچ گے اور فرانس کے بعض علاقے بھی فتح کئے۔ بحر روم کا سب سے بڑا جزیرہ سسلی بھی اسی زمانے میں فتح ہوا ۔ مورخین کا بیان ہے کہ اندلسیوں پر مسلمانوں کی اتنی ہیبت
[1] تاریخ اسلام ، حصہ اول ، ص 187