کتاب: جہاد کے مسائل - صفحہ 35
سے دیکھا قلت تعداد اور قلت سامان کی باوجود جذبہ ایمان نے کفر کی ہمالہ جیسی سربہ فلک قوت کے بت غرور کو پاش پاش کردیا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات اقدس کے فوراً بعد ہر طرف فتنے اور شورشیں اٹھ کھڑی ہوئیں ۔ جھوٹے مدعیان نبوت کا فتنہ ، مانعین زکاۃ کا فتنہ، ارتداد کا فتنہ ، ایک سے ایک بڑھ کر فتنوں کے ساتھ ساتھ جیش اسامہ رضی اللہ عنہ کا مسئلہ بھی درپیش تھا۔صحابہ اکرام رضی اللہ عنہم نے ان نازک حالات میں فوج کو دار الخلافہ سے بھیجنے کی مخالفت کی تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا ’’اس ذات کی قسم ! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر مدینہ میں اتنا سناٹا ہو جائے کہ درندے آکر میری ٹانگیں نوچنے لگیں تب بھی میں اس مہم کو، جس کی روانگی کا حکم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دے چکے ہیں ، نہیں روکوں گا۔ ‘‘ مانعین زکوٰۃ کے خلاف جہاد کرنے کے بارے میں صحابہ اکرام رضی اللہ عنہم نے اختلاف کیا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا ’’اللہ کی قسم ! جو شخص رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بکری کا ایک بچہ زکوٰۃ میں دیتا تھا اگر وہ دینے سے انکار کرے گا تو میں اس کے خلاف جہاد کروں گا۔‘‘ ان مشکل ترین حالات میں یہ صرف حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی ایمانی قوت ہی تھی جس نے تمام فتنوں کا استیصال کیا اور امت کے نئے سرے سے شیرازہ بندی کا عظیم کارنامہ سر انجام دیا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت ) 634ء تا645 ء(میں مسلمانوں نے ایران کے دار الخلافہ مدائن پر حملہ کرنا چاہا ، تو ایرانی فوج نے مدائن کے قریب دریائے دجلہ کا پل توڑ دیا تاکہ اسلامی لشکر آگے نہ بڑھ سکے اسلامی لشکر دریائے دجلہ پر پہنچا ، تو دریا عبور کرنے کا کوئی راستہ نہ تھا چنانچہ لشکر کے سپہ سالار حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے اللہ کا نام لے کر اپنا گھوڑا دریا میں ڈال دیا۔ انہیں دیکھ کر سارا لشکر دجلہ میں اتر گیا اور اطمینان سے دریا کو عبور کر لیا ۔ ایرانی فوج دور کھڑی یہ ناقابل یقین حیرت انگیز منظر دیکھ رہی تھی اسلامی لشکر کنارے پر پہنچا تو ایرانی فوج ’’دیو آمد ند ، دیو آمد ند ‘‘ کہہ کر بھاگ نکلے اور ’’شہنشاہ سلامت ‘‘ یزد گرد دار الخلافہ چھوڑ کر بھاگ گئے۔[1] تاریخ اسلام کا یہی وہ مشہور معرکہ ہے جس کے بارے میں شاعر مشرق علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مشہور کتاب ’’شکوہ‘‘ میں یہ شعر لکھا۔[2]
دشت تو دشت ہیں دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحر ظلمات میں دوڑا دیئے گھوڑے ہم نے
یزدگرد دار الخلافہ سے بھاگ کر حلوان پہنچا۔ اسلامی لشکر نے دارالخلافہ پر قبضہ کرنے کے بعد حلوان کی تسخیر کا ارادہ کیا۔ یزد گرد کو معلوم ہوا ، تو وہ حلوان سے بھی بھاگ گیا اور اسلامی لشکر نے حلوان کو بھی فتح کر لیا۔[3] یہ مسلمانوں کا فقط جذبہ ایمان ہی تھا کہ وہ جدھر کا رخ کرتے ہر چیز مسخر ہوتی چلی جاتی
[1] تاریخ اسلام ، حصہ اول ، ص 170/169
[2] تاریخ اسلام ، جلد دوم ، ص 178
[3] تاریخ اسلام ، حصہ اول ، ص 167