کتاب: جہاد کے مسائل - صفحہ 30
اورادو وظائف سے کررہے تھے۔ نابلیون کا انتخاب کرکے اسے صوفیائکی گوڈری پہنائی گئی اور اس کی رہنمائی میں ذکر و فکر کی مجالس قائم کی گئیں۔ بخاری شریف کا ختم بھی کرایا گیا ، لیکن ان سب باتوں کا کچھ بھی فائدہ نہ ہوا اور مسلمان مار کھاتے رہے بالآخر جب مسلمان مجاہدین نے یورپ کی سرزمین میں لوگوں سے جنگیں کیں تب جا کر حالات نے پلٹا کھایا۔‘‘[1] ایک اور جہاد دشمن تحریک ’’بہائیت ‘‘ یا’’ بابیت‘‘ کے نام سے انیسویں صدی میں برپا کی گئی جس کا محرک ایک روسی جاسوس ’’کینازدالگورکی ‘‘ تھا جو اصلا یہودی تھا ، لیکن منافقانہ طور پر مسلمان ہوگیا ۔ بہائیت کا بانی ایک ایرانی باشندہ بہاء اللہ تھا جس کا اصلی نام مرزا حسن علی تھا ۔ اس نے 1867ء میں نبوت کا دعویٰ کیا ۔1918ء میں حکومت برطانیہ نے بہاء اللہ کو ’’سر‘‘ اور ’’اوبی ای‘‘[2] کا خطاب دیاجس کے بعد بہائیت کے تعلقات صہیونیت کے ساتھ بہت مستحکم ہوگئے۔ یاد رہے کہ آج کل بہائیت کا مرکز اسرائیل کے شہر’’ حیفا‘‘کے مقام پر ہے۔ بہائی نماز پڑھتے وقت اپنا رخ حیفا کی طرف کرتے ہیں اور حج بھی وہیں کرتے ہیں۔ دنیا کے 180ممالک میں ان کے 28ہزار 217چھوٹے بڑے مراکز قائم ہیں۔صرف امریکہ کے 2570شہروں میں ان کے دفاتر موجود ہیں۔ اقوام متحدہ میں ان کا اپنا الگ دفتر ہے۔ [3]اس تحریک کا راست مقصد مسلمانوں کے دلوں سے جذبہ جہاد مٹانا ، اسلام کے الہامی اصولوں ، شانداراسلامی ورثے اور اخلاق کریمانہ سے منحرف کرنا ہے۔[4] ایک اور جہاد دشمن تحریک ’’قادیانیت ‘‘کے نام سے بر صغیر ہندمیں انیسویں صدی کے آخر میں پیدا کی گئی جیسا کہ اس سے پہلے ہم لکھ آئے ہیں کہ 1857ء کی تحریک آزادی جب ناکام ہوئی تو انگریزوں نے برصغیر ہند پر تادیر سامراجی تسلط برقرار رکھنے کے لئے دو طرح کے اقدام کئے۔اولاً جنگ آزادی میں حصہ لینے و الے مسلمانوں پر بے پناہ ظلم و ستم ڈھائے گئے۔ ثانیاً مسلمانوں کے عقائد و اعمال سے جہاد کا تصور ختم کرنے کے لئے ایک نئے فرقہ ’’قادیانیت‘‘ کی بنیاد رکھی گئی جس کے بانی مرزا غلام احمد قادیانی تھے جو ابتداء سیالکوٹ کچہری میں عرضی نویس تھے۔ 1880ء میں انہوں نے مجدد ہونے کا دعویٰ کیا اور 1891ء میں نبوت کا دعویٰ کیا۔ مرزا صاحب نے انگریزوں کا یہ مقصد کس حد تک پورا کیا اس کا اندازہ خود مرزا صاحب کی تحریروں کی روشنی میں کیا جا سکتا ہے۔ چند نمونے ملاحظہ ہوں:
[1] مقدمہ ’’الفکر الصوفی‘‘ ص6، از عبدالرحمن عبدالخالق، مطبوعہ کویت [2] O.B.E یعنی Officer Of British Eppire [3] ماہنامہ صراط مستقیم ، ص 13 ،16 مارچ 1996ء برمنگھم [4] ’’یہ ہے بہائیت ‘‘ ص 3، ناشر مجلس اعلیٰ برائے دعوت و ارشاد ، سعودی عرب