کتاب: جہاد کے مسائل - صفحہ 28
رکھا گیا ہے ، کسی دوست یا عزیز کی ملاقات کے بعد مجھے دو مرتبہ برہنہ کیا جاتا ہے ، کپڑے اتارنے کے بعد حکم دیا جاتا ہے کہ میں رانیں کھول کر آگے کی طرف جھک جاؤں پھر وہ جانوروں کی طرح میرے پوشیدہ اعضاء کی اچھی طرح تلاشی لیتے ہیں ، میرے اردگرد کھڑے ہو کر قہقہے لگاتے ہیں جو شخص معائنہ کرتے ہوئے زیادہ وقت لیتا ہے اسے تحسین کی نظر سے دیکھا جاتا ہے میرے ساتھ یہ ذلت آمیز اور انسانیت سوز سلوک اس لئے ہورہا ہے کہ میں مسلمان ہوں اور اس طرح کے سلوک کو میرے اللہ نے منع کیا ہے۔ اس مشکل گھڑی میں میں شرمندگی اور ندامت سے میرا وجود پانی پانی ہوجاتا ہے اور دل چاہتا ہے کہ اس سے پہلے کہ یہ لوگ میری تذلیل کریں زمین پھٹ جائے اور میرا وجود نگل لے۔‘‘[1] امر واقعہ یہ ہے کہ امریکی حکام شیخ عمر عبدالرحمن کی تذلیل اور رسوائی محض ایک فرد سمجھ کرنہیں بلکہ پوری امت مسلمہ کے نمائندے کی حیثیت سے کررہے ہیں۔ یہ ذلت اور رسوائی بھی آج مسلمانوں کے حصہ میں ترک جہاد ہی کی وجہ سے آئی ہے کہ اسلام آباد میں بوسنیا کے سفارت خانہ کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق بوسنیا میں قتل و غارت اور خون ریزی کے صرف ابتدائی چھ ماہ (اپریل 1992ء تاستمبر1992ء) میں ڈھائی لاکھ مسلمان شہید کئے گئے۔5لاکھ بے گھر کئے گئے اور 50ہزار عفت مآب مسلمان خواتین کی آبروریزی کی گئی ۔ [2] ان اعدادو شمار سے بقیہ تین چار سال کے دوران بوسنیا میں مسلمان مردوں اور عورتوں سے ہونے والے ذلت آمیز اور انسانیت سوز مظالم کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ کشمیر کی صورت حال اس سے مختلف نہیں۔ آئے دن کشمیری مسلمان خواتین کی اجتماعی آبروریزی کی اذیت ناک اور ذلت آمیز خبریں اخبارات میں آتی رہتی ہیں، بیت المقدس پر یہودیوں کا قبضہ، بابری مسجد کا انہدام اور دیگر بے شمار المناک واقعات جو مسلمانوں کی دینی حمیت و غیرت کے لئے تازیانہ عبرت کی حیثیت رکھتے ہیں ، محض اس وجہ سے پیش آرہے ہیں کہ مسلمان اپنے دین (جہاد) سے کنارہ کش ہو چکے ہیں۔ آج ساری دنیا کے مسلمان ملکوں میں قبرستان کا سا سناٹاطاری ہے ، کوئی حجاج بن یوسف نہیں جو جیل سے چیخ چیخ کر پکارنے والے عمر عبدالرحمن کی فریاد کا جواب دے سکے۔ آج کوئی محمد بن قاسم رحمۃ اللہ علیہ اور معتصم باللہ نہیں جو ہزاروں معصوم اور عفت مآب مسلمان خواتین پر ہونے والے ظلم اور تشدد کے جواب میں لبیک کہے؟ یہ بھی مسلمانوں کی جہاد سے غفلت اور انحراف کا نتیجہ ہے کہ نصف صدی سے ہمیں ایک چھوٹے سے خطہ زمین ’’کشمیر‘‘ کے چکر میں ڈال کر اس حقیقت سے غافل کردیا گیا ہے کہ کشمیر سمیت پورا ہندوستان مسلمانوں کا ہے۔ سندھ میں محمد بن قاسم رحمۃ اللہ علیہ کی آمد (711ء) سے لے کر بہادر شاہ ظفر کی جلا وطنی (1857ء) تک ہزار سال سے
[1] ہفت روززہ الاعتصام ، لاہور 24مئی 1996ء [2] ہفت روززہ تکبیر ، کراچی 4مارچ 1993ء