کتاب: جہاد کے مسائل - صفحہ 27
ترک جہاد کی وجہ سے اسلام اور مسلمانوں کی زبوں حالی کا اندازہ لگانے کے لئے کیمونزم کے ظالمانہ اور جابرانہ نظام کے تحت گزستہ ستر برس گزارنے والی ریاستوں کے ماضی پر ایک نگاہ ڈال لیجئے ۔ چند سال قبل حکومت روس کی دعوت پر پاکستانی ادیبوں کا ایک وفد روس کے تفریحی دورے پر گیا تو وفد کے ہر رکن سے پوچھا گیا کوئی ایسی جگہ ہے جسے دیکھنے کی آپ کو خواہش ہو؟ ایک خاتون رکن نے تاشقند کا نام لیا تو کیمونسٹ گھبرا گئے ۔ بڑی کوشش کی کہ وہ کسی اور جگہ کا انتخاب کرلے لیکن خاتون رکن اپنی ضد پر اڑی رہیں ، وہاں جا کر خاتو ن نے جو کچھ دیکھا وہ یہ تھا کہ مساجد پر تالے پڑے ہوئے ہیں ، محرابوں میں جالے لٹک رہے ہیں ، گنبد اکھڑے ہوئے ہیں ، اندر چمگادڑوں نے ڈیرہ لگا رکھا ہے ، گھروں میں بوڑھی مائیوں نے خاتون کو گلے لگا یا …’’کیا تو اللہ کے گھر (یعنی پاکستان) سے آئی ہے؟‘‘ انہوں نے زیر لب آواز میں پوچھا اور پھر اسے چومنے لگیں چوم چوم کر بے حال کر دیا۔ ساتھ ہی ان کے آنسو رواں تھے… بوڑھی مائیاں پچھلی کوٹھڑی میں نماز پڑھتی ہیں ، نوجوان لڑکے باہر پہرہ دیتے ہیں … قرآن چھپائے ہوئے رکھے ہیں ، دروازہ بجتا ہے تو دل ڈوب جاتے ہیں ’’کوئی آگیا ‘‘ روٹی، کپڑا اور مکان دینے والوں نے ’’اللہ‘‘ کو ملک بدر کررکھا ہے۔‘‘[1] یہ ذلت اور رسوائی بھی آج مسلمانوں پر ترک جہاد کے وجہ سے ہی مسلط کی گئی ہے کہ مصر کے ایک جید نابینا عالم دین شیخ عمر عبدالرحمن کو ایک عیسائی حکومت نے محض اس بے بنیاد الزام میں عمر بھر کے لئے جیل میں ڈال رکھا ہے کہ انہوں نے امریکہ کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر میں بم دھماکہ کی منصوبہ بندی کی تھی۔ یاد رہے کہ شیخ عمر عبدالرحمن نہ صرف حافظ قرآن ہیں بلکہ بخاری شریف کے بھی حافظ ہیں۔ شیخ کے بیٹے جہاد افغانستان میں حصہ لے چکے ہیں۔ شیخ کا جرم صرف یہ ہے کہ وہ دین اسلام کی سربلندی اور غلبہ کے لئے مسلمانوں کو اپنے دروس میں جہاد فی سبیل اللہ کی تلقین کرتے رہے ہیں۔ دنیا میں حریت فکر اور انسانی حقوق کے سب سے بڑے علمبردار ملک کی جیل میں اس ساٹھ سالہ مسلمان عالم دین سے جو انسانیت سوز سلوک ہورہا ہے اس کی رونگٹے کھڑے کردینے والی تفصیلات خود شیخ عمر عبدالرحمن نے دنیا کے سارے مسلمانوں کے نام ایک مکتوب میں تحریر کی ہیں جو ملک کے مختلف رسائل اور جرائد میں چھپ چکا ہے۔ خط کے بعض حصے ملخصاً درج کئے جاتے ہیں۔ ’’جیل میں مجھے نماز جمعہ اور باجماعت نماز ادا کرنے کی اجازت نہیں ، مجھے قید تنہائی میں
[1] ہفت روززہ الاعتصام ، لاہور 24مئی 1996ء، یاد رہے کہ جہاد افغانستان کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے یہ ریاستیں اب آزاد ہوچکی ہیں جس کا تفصلی ذکر پہلے گزر چکا ہے۔