کتاب: جہاد کے مسائل - صفحہ 24
بادشاہ بنایا ۔ اس نے ہارون الرشید ) 786ء تا809 ء(کو لکھا کہ ’’ملکہ اینی اپنی خلقی کمزوری اور ضعف عقل کی وجہ سے تمہیں خراج ادا کرتی رہی ہے لہٰذا میرا خط ملتے ہی وہ ساری رقم واپس کردو جو اب تک وصول کر چکے ہو ورنہ تمہارا فیصلہ تلوار کرے گی۔‘‘ یہ خط پڑھ کر خلیفہ جوش غضب سے بھر گیا اور اسی خط کی پشت پر یہ جواب لکھ کر واپس کر دیا ’’بسم اللہ الرحمان الرحیم۔ امیر المؤمنین ہارون الرشید کی طرف سے رومی کتے کے نام ! اے کافر ماں کی اولاد ، میں نے تیرا خط پڑھ لیا ہے اس کا جواب سننے کی بجائے عنقریب تو اپنی آنکھوں سے دیکھے گا۔ ‘‘ یہ جواب بھیج کر اسی وقت لشکر کو کوچ کا حکم دیا ۔ گھمسان کا رن پڑا ، نیسو فور کو شکست ہوئی اور اسے مجبوراً خراج دے کرصلح کرنی پڑی۔[1]
837ء میں قیصر روم توفیل ) 829ء تا842ء(نے عراق کے ایک شہر، زبطرہ پر حملہ کیا۔ قلعوں کو خوب لوٹا قیدی مردوں کو خوب لوٹا قیدی مردوں کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیر کر ناک اور کان کاٹ ڈالے ۔ قیدی عورتوں میں سے ایک عورت نے ’’وامعتصماہ!‘‘ (یعنی اے معتصم میری مدد کر) کی فریاد کی۔ معتصم باللہ (833ء تا 841) کو جب قیصر روم کے ان وحشیانہ مظالم اور عورت کی فریاد کی خبر پہنچی ، تو اس وقت دربار میں تخت پر بیٹھا تھا ، وہیں سے بیٹھے بیٹھے بولا ’’لبیک ، لبیک‘‘ (یعنی میں پہنچا، میں پہنچا) تخت سے اترا اور اعلان جہاد کروا دیا ۔ خود بغداد کے قاضی عبدالرحمن بن اسحق کے روبرو جا کر وصیت کی کہ میری وراثت کاایک تہائی اولاد کو ، ایک تہائی اقرباء کو اور ایک تہائی فی سبیل للہ دے دیا جائے اور خود لشکر لے کر رومیوں کے سب سے بڑے مستحکم قلعہ ’’عموریہ‘‘ پر ٹوٹ پڑا اور عموریہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔[2]
ہم نے چند واقعات بطور مثا ل پیش کئے ہیں ورنہ تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ جب مسلمان جذبہ جہاد سے سرشار تھے اور جہاد ان کی زندگیوں کا اوڑھنا بچھونا تھا تب مسلمان وہ عظیم قوت تھے کہ جس کسی نے ان کی غیرت اور حمیت کو للکارا ، نیست و نابود ہوگیا۔
جہاد کی برکات اور ثمرات کا اندازہ لگانے کے لئے اس گئے گزرے دور کی مثا ل جہاد افغانستان ہمارے سامنے ہے، جب ایک کافر ملک ، لیکن دنیا کی سب سے بڑی فوجی قوت …سوویت یونین… نے افغانستان جیسے پسماندہ اور وسائل سے محروم مسلمان ملک پر غاصبانہ قبضہ کیا اور مسلمانوں نے جذبہ جہاد سے سرشار ہو کر اس غاصب قوت سے ٹکر لینے کا عزم کر لیا تو اللہ تعالیٰ نے اس مغلوب ، بے کس اور بے بس قوم کے ساتھ وہ سارے وعدے پورے فرمائے جس کا ذکر قرآن مجید میں کیا گیا ہے ۔ ایک نظر درج ذیل حقائق پر ڈالئے:
1 دس سا ل کی انتہائی قلیل مدت میں آدھی دنیا پر حکومت کرنے والی عظیم فوجی قوت جس سے اس کی
[1] تاریخ اسلام ، حصہ سوم ، ص 105
[2] تاریخ اسلام ، حصہ سوم ، ص 199