کتاب: جہاد کے مسائل - صفحہ 22
شامل ہونا شروع ہوگئے۔ جہاد کے ذریعہ حاصل ہونے والی عظمت ، شان و شوکت اور سربلندی کا یہ نقطہ عروج تھا کہ آدھی دنیا پر حکومت کرنے والی سب سے بڑی فوجی قوت …روم) جس نے ابھی ابھی اپنی مدمقابل عظیم قوت ایران کو شکست دی تھی، تبوک میں مسلمانوں کے مد مقابل آنے کی جرأت نہ کرسکی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تبوک میں بیس یوم انتظار کے بعد ساری دنیا سے اپنی طاقت اور قوت کا لوہا منوا کر مدینہ منورہ واپس تشریف لائے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم 11ھ (632ء) میں دنیا سے تشریف لے گئے۔ عہد صدیقی (632 تا634ء) میں نہ صرف عراق اور حیرہ جہاد کے ذریعہ سرنگوں ہوئے بلکہ حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے خون کا بدلہ لینے اور مدعیان نبوت کی سرکوبی اور فتنہ ارتدادکا استیصال بھی جہاد ہی کے ذریعے ممکن ہوا۔جہاد ہی کے نتیجہ میں 635ء میں دمشق ، 636ء میں حمص، انطاکیہ اور بیت المقدس فتح ہوئے اور 638ء میں پورے ملک شام پر اسلامی پرچم لہرانے لگا۔ ایران میں فتوحات کی ابتداء عہد فاروق (634تا645ء ) میں 635ء میں ہوئی۔ 642ء تک قادسیہ ، مدائن ، جلولاء ، حلوان ، خوزستان، اصفہان ، ہمدان ، رے ، طبراستان، آذربائی جان، آرمینیا، کرمان اور خراسان سب کے سب مفتوح ہوگئے۔ 641ء میں مصر اور 647ء میں تیونس فتح ہوا۔ 655ء میں جزائر یونان اور قبرص فتح ہوئے ۔ 670ء میں قیروان (تیونس کا شہر) فتح ہوا۔ 674ء میں بخارااور 675ء میں سمرقنداسلامی حکومت میں شامل ہوئے۔ 693ء میں ساحل اطلس (اوقیانوس) اسلامی سلطنت کا حصہ بنا۔ 700ء میں اسلامی فوجوں نے ایشیائے کوچک پر قبضہ کیا۔ 711ء میں جنرل محمد بن قاسم رحمۃ اللہ علیہ نے کراچی سے ملتان تک کا علاقہ فتح کیا۔ اسی سال یعنی 711ء میں جنرل طارق بن زیادہ رحمۃ اللہ علیہ جبرالٹر (سپین) پر اترآئے اور سپین کے علاوہ آدھا فرانس بھی سرنگوں ہوگیا۔809ء میں کارسیکا اور 810ء میں جزیرہ سارڈینیا ، 823ء میں کریٹ ، 827ء میں سسلی ، 846ء میں جنوبی اٹلی اور 870میں مالٹا مسخر ہوا۔ اندازہ فرمائیے ! کہ جہاد کی برکت سے صرف دوسوسال کے عرصہ میں بحیرہ اسود سے لے کر ملتان تک اور سمر قند سے لے کر فرانس تک تقریباً نوے (90) لاکھ مربع میل کے وسیع رقبہ پر اسلامی سلطنت کا پھریرا لہرانے لگا اور مسلمان دیکھتے دیکھتے دنیا کی عظیم الشان سیاسی ، تہذیبی اور تمدنی قوت بن گئے۔ جذبہ جہاد سے سرشار اور پے درپے فتوحات کا یہی وہ سنہرا دور تھا جس سے متاثر ہو کر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے ’’ترانہ ملی ‘‘ کے یہ شعر لکھے:
تیغوں کے سائے میں ہم پل کر جواں ہوئے ہیں
خنجر ہلال کا ہے قومی نشاں ہمارا
مغرب کی وادیوں میں گونجی اذاں ہماری
تھمتا نہ تھا کسی سے سیل رواں ہمارا