کتاب: جہاد کے مسائل - صفحہ 19
اب ایک نظر اس جنگ میں صادق الایمان مسلمانوں کا طرز عمل بھی ملاحظہ ہو ، اعلان جہاد ہوتے ہی سب مسلمانوں نے بلا تامل تیاری شروع کردی جن لوگوں کے پاس زاد سفر نہیں تھا وہ خدمت اقدس میں حاضر ہوئے کہ ہمارے لئے بھی کوئی سواری کا بندوبست کردیا جائے ، لیکن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے سامان سفر مہیا نہ کر سکنے کی وجہ سے اہل ایمان حسرت و یاس سے آنسو بہاتے واپس آجاتے۔ قرآن مجید نے ان لوگوں کا ذکر خیر ان الفاظ میں کیا : ﴿ اِذَا مَا اَتَوْکَ لِتَحْمِلَہُمْ قُلْتُ لاَ اَجِدُ مَا اَحْمِلُکُمْ عَلَیْہِ تَوَلَّوْا وَ اَعْیُنُہُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَنًا اِلاَّ یَجِدُوْا مَا یُنْفِقُوْنَ ،﴾ ’’وہ لوگ جنہوں نے خود آکر درخواست کی تھی کہ ہمیں سواریاں مہیا کی جائیں اور جب تم نے کہا کہ میں تمہارے لئے سواریاں مہیا نہیں کر سکتا تو وہ مجبوراً واپس چلے گئے اور حال یہ تھا کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور انہیں اس بات کا بڑا رنج تھا کہ وہ اپنے خرچ پر شریک جہاد ہونے کی طاقت نہیں رکھتے۔‘‘ (سورہ توبہ ، آیت نمبر92) پھر جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاد کے فنڈ کا اعلان فرمایا ، تو مخلص اور سچے مسلمانوں نے قحط سالی اور عسرت کے باوجود ایسی ایسی نادر مثالیں پیش کیں جو رہتی دنیا تک اہل ایمان کو نیا جذبہ اور ولولہ مہیا کرتی رہیں گی۔حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنے گھر کا سارا سامان اٹھا کر لے آئے ۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ گھر کی ہر چیز نصف نصف کر لائے۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے مجموعی طور پر 900اونٹ 100گھوڑے ، 40کلو چاندی ،اور 5.50کلو سونا خدمت اقدس میں پیس کیا۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ 29.50 کلوچاندی اور حضرت عاصم بن عدی رضی اللہ عنہ 13.50ہزارکلو کھجوریں لے کر حاضر ہوئے۔ خواتین نے اپنے زیور اتار کر دے دیئے ۔ ایک انصاری حضرت ابو عقیل نے رات بھر کنواں چلا کر 4کلو چھوہارے اجرت حاصل کی ، دو کلو بال بچوں کے لئے اور 2کلو جہاد فنڈ کے لئے لے آئے۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مخلص صحابی کی حوصلہ افزائی فرماتے ہوئے حکم دیا ’’ان چھوہاروں کو سارے مال کے اوپر بکھیر دو۔‘‘ یوں اس موقع پر بھی دونوں کرداروں کی اصل حقیقت کھل کر سامنے آگئی۔ غزوہ تبوک کے موقع پر مخلص مومنین اور منافقین کے علاوہ ایک تیسرے گروہ کا ذکر کرنا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے ، جو تھے تو سچے اور مخلص مومن ، لیکن محض بشری کمزوری اور کوتاہی کی وجہ سے پیچھے رہ گئے تھے۔ ان میں تین حضرات (کعب بن مالک رضی اللہ عنہ ، بلال بن امیہ رضی اللہ عنہ اور مرارہ بن ربیع رضی اللہ عنہ ) خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ تبوک سے واپسی پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان حضرات سے جہاد میں عدم شرکت کی وجہ دریافت فرمائی تو سچ سچ بتادیا کہ کسی عذر کے بغیر کوتاہی ہوئی ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے