کتاب: جہاد کے مسائل - صفحہ 15
رحمۃ اللہ علیہ کے نام سے باطل سے برسر پیکار ہوا ، یہ سب ایک ہی کردار کے مختلف نام ہیں جو ازل سے زندہ ہیں اور ابد تک زندہ رہیں گے، خواہ دشمنان دین اسے مٹانے اور ختم کرنے کے کتنے ہی جتن کرتے رہیں ۔
﴿یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِؤُا نُوْرَ اللّٰہَ بِاَفْوَاہِہِمْ وَ اللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہِ وَلَوْ کَرِہَ الْکَافِرُوْنَ﴾
’’کافر لوگ اپنے منہ کی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں اور اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ اپنے نور کو پورا پھیلا کر رہے گا خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔‘‘(سورۃ الصف ، آیت نمبر8)
جہاد…ایمان اور نفاق کے درمیان خط امتیاز:
ایمان اور نفاق دو الگ الگ اور متضاد راستے ہیں اگرچہ بظاہر دونوں میں کوئی فرق نظر نہیں آتا اہل ایمان بھی کلمہ گو،منافق بھی کلمہ گو،اہل ایمان بھی نمازی اور روزہ دار،منافق بھی نمازی اور روزہ دار،لیکن جو چیزکھرے اور کھوٹے کو ،سچ اور جھوٹ کو،ایمان اور نفاق کوایک دوسرے سے الگ کرنے والی ہے وہ صرف جہاد ہے میدان جنگ میں پہنچ کر اپنی جان اللہ کی راہ میں قربان کرنا،جہاد فی سبیل اللہ کا آخری مرحلہ ہے، لیکن اس آخری مرحلہ سے قبل کتنے ہی ایسے مراحل ہیں جن میں انسان کے ایمان کی ایک بار نہیں بلکہ سوسو بار آزمائش ہوتی ہے والدین کی محبت ،اولاد کی محبت،بیوی کی محبت،اعزہ اقارب کی محبت،مال ودولت کی محبت ، کاروبار کی محبت اور پُر آسائش یا آرام دہ گھر کی محبت،زندگی کی محبت جو شخص محبت کی ان ساری زنجیروں کو توڑ کر صرف اللہ اور اس کے رسول کی محبت میں سرشار ہوتاہے وہی میدان جنگ تک پہنچ پاتاہے ،چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں وہی لوگ جو مسلمانوں کے ساتھ مل کر نماز،روزہ کرتے تھے اللہ کی راہ میں سردھڑ کی بازی لگانے کا حکم ہوا،تو ان پر موت کا عالم طاری ہوگیا،قرآن مجید نے ایسے لوگوں کی دلی کیفیت بڑے الفاظ میں بیان فرمائی ہے:
﴿ فَاِذَا اُنْزِلَتْ سُوْرَۃٌ مُّحْکَمَۃٌ وُّذُکِرَ فِیْہَا الْقِتَالُ رَاَیْتَ الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ یَّنْظُرُوْن اِلَیْکَ نَظَرَ الْمَغْشِیِّ عَلَیْہِ مِنَ الْمَوْتِ ﴾
’’جب ایک پختہ سورت نازل کردی گئی جس میں جنگ کا ذکر تھاتو تم نے دیکھاکہ جن کے دلوں میں بیماری تھی وہ تمہاری طرف اس طرح دیکھ رہے تھے جیسے کسی پر موت چھاگئی ہوئی ہو۔‘‘(سورہ محمد،آیت نمبر20)
غزوہ احد جو کہ قتال اور خون ریزی کے اعتبار سے سب سے بڑا معرکہ تھا ، میں اس حقیقت کا عملی مظاہرہ اس وقت ہوا جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ طیبہ سے ایک ہزار افراد کا لشکر لے کر نکلے جب