کتاب: جہاد کے مسائل - صفحہ 14
ثابت ہوئی ، چند دن بعد جج ایک ناگہانی موت کا شکار ہو گیا۔مقدمہ کے باقی آٹھ ملزموں کو حبس دوام بہ عبور دریائے شور مع ضبطی جائیداد کی سزا دی گئی ۔ پھانسی پانے والے تینوں مردان حق کے بارے میں انگریزوں میں یہ بات مشہور ہوگئی کہ یہ لوگ پھانسی پانے پر بہت خوش ہیں چنانچہ سیشن جج کے فیصلہ کے خلاف جوڈیشنل کمشنر کی عدالت میں اپیل دائر کی گئی ۔ 16دسمبر1864ء کو ڈپٹی کمشنر انبالہ نے پھانسی گھروں میں جاکر جوڈیشنل کمشنر کا حکم سنایا کہ تم لوگ پھانسی پانے کو بہت محبوب رکھتے ہو اس لئے سرکار تمہیں تمہاری دل چاہتی سزا نہیں دیں گے اس نے تمہاری سزائے موت ، حبس دوام بہ عبور دریائے شور سے بدل دی ہے۔ جیل خانہ کے دستور کے مطابق تینوں قیدیوں کے سر اور داڑھی کے بال مونڈ دیئے گئے مولانا یحییٰ رحمۃ اللہ علیہ بار بار کٹی ہوئی داڑھی کے بال اٹھا کر فرماتے ’’افسوس نہ کر تو خدا کی راہ میں پکڑی گئی اور اس کی راہ میں کاٹی گئی۔‘‘ مولانا یحییٰ علی صادق پوری اور ان کے رفقاء کرام ایک جیل سے دوسری جیل میں منتقل ہوتے رہے یہاں تک کہ دسمبر 1865ء میں جزائر انڈیمان (کالا پانی) پہنچا دیئے گئے ۔ مولانا یحییٰ علی صادق رحمۃ اللہ علیہ کالا پانی میں ہی 3فروری 1868ء کو اپنے خالق حقیقی کے پاس جا پہنچ گئے جبکہ مولوی محمد جعفر رحمۃ اللہ علیہ 18 سال قید بامشقت کاٹنے کے بعد 18جنوری 1883ء کو رہا ہوکر ہندوستان پہنچے اور اس مقدمہ کی روداد ابتلا ’’تواریخ عجیب ‘‘(معروف بہ کالا پانی)کے نام سے رقم ہے۔
انگریزوں کے قائم کردہ باقی مقدمات بغاوت کی روئداد اپنی اپنی جگہ ایک الگ داستان استقامت وعزیمت ہے اللہ پر توکل کرنے والے اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے والوں کی سیرت ، کردار ، قربانی، ایثار ، تقویٰ اور خلوص کے واقعات پڑھنے کے بعد انسان سوچنے لگتا ہے کہ یہ واقعات واقعی زندہ حقیقت ہے یا افسانے ہیں ۔یہ لوگ ہم جیسے گوشت پوشت کے انسان تھے یا کوئی دوسری پراسرار مخلوق تھے۔ اندلس کے میدان میں طارق بن زیاد رحمۃ اللہ علیہ کی دعا کو شاعر مشرق علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے اشعار کی خوبصورت زبان عطا کی وہ ایسے ہی عظیم انسانوں کے لئے تھی۔
یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے جنہیں تو نے بخشا ہے ذوق خدائی
دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
حق و باطل کی کش مکش میں حق کا یہ کردار جو کبھی سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اور کبھی خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا مقدر بنا ، کبھی محمد بن قاسم رحمۃ اللہ علیہ اور کبھی طارق بن زیاد رحمۃ اللہ علیہ نے ادا کیا کبھی سلطان محمود غزنوی رحمۃ اللہ علیہ اور کبھی الپ ارسلان رحمۃ اللہ علیہ کے نام سے یہ تاریخ کے ماتھے کا جھومر بنا کبھی نور الدین زنگی رحمۃ اللہ علیہ اور کبھی صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ کے نام سے سامنے آیا ، کبھی اورنگ زیب عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ اور کبھی سید احمد شہید