کتاب: جہاد کے مسائل - صفحہ 13
کمرے کے درودیوار لرز اٹھے ، مار مار کر تھک جاتے تو سانس لیتے ، رکتے اور تازہ دم ہوکر مولوی صاحب کو لتروں ، لاتوں اور بیدوں سے دھنکنے لگتے ۔ سارا دن اسی وحشیانہ مار پیٹ میں گزر گیا ۔ مولوی صاحب کی زبان پر مسلسل یہ دعا جاری تھی ’’الٰہی ! یہ وقت امتحان ہے مجھے اس میں ثابت قدم رکھ‘‘ مار پیٹ نے زبان خشک کردی ، حلق میں کانٹے چبھنے لگے ، کئی بار نیم غشی کی حالت طاری ہوئی اس کے باوجود فولاد کی طرح سخت اور ناقابل شکست تھے صبح کے آٹھ بجے سے رات کے آٹھ بج گئے اور مار پیٹ جاری رہی ، انگریز افسروں نے مایوس ہو کر جیل پہنچا دیا بنگلے سے باہر نکلے تو درخت کے پتوں سے روزہ افطار کیا ۔ سارا جسم زخموں سے چور تھا مگر مرد حق کا سراب بھی بلند تھا انگریز مولوی صاحب کو سرنگوں کرنے میں ناکام رہے تھے۔ اپریل 1864ء میں گیارہ ’’مجرمان عشق ‘‘کی پہلی بار مجسٹریت کی عدالت میں پیشی ہوئی جن میں مولوی محمد جعفر اور امیر مجاہدین مولانا یحییٰ علی صادق پوری اور باقی نو ان کے جانثار رفقاء تھے ۔ پیشی کے دوران نماز ظہر کا وقت آیا تو مولوی محمد جعفر رحمۃ اللہ علیہ نے نماز پڑھنے کی اجازت مانگی ، مجسٹریٹ بہادر فرمانے لگے ’’تم لوگوں کے لئے مقدمہ ملتوی نہیں کیا جا سکتا ‘‘یہ جواب سن کر ساسے بلا کشان اسلام عدالت کے اندر ہی زمین پر تیمم کر کے مولانا یحییٰ علی صادق کی امامت میں نماز کے لئے کھڑے ہو گئے۔ اردگرد پولیس اور فوج کے دو سو مسلح جوان بندوقیں اور سنگینیں تانے منتظر حکم کھڑے تھے ۔تین دن ان ’’مجرموں‘‘ نے ایسے ہی فرض عشق ادا کیا ، چوتھے روز مجسٹریٹ نے ایک ایک آدمی کو تین تین محافظوں کی حفاظت میں عدالت سے باہر جاکر نماز پڑھنے کی اجازت دے دی۔6مئی1864ء فیصلہ کا دن تھا۔ ملزم ہتھکڑیوں ، بیڑیوں اور طوق وسلاسل میں جکڑے ہوئے عدالت میں لائے گئے ۔ عدالت کے جج ہر برٹ ایڈورڈز نے نفرت بھری نظر ملزموں پر ڈالی اور فیصلہ سنایا ’’یحییٰ علی ولد الٰہی بخش ، محمد جعفر ولد میاں جیون اور محمد شفیع ولد محمد تقی کو سزائے موت مع ضبطی جائیداد دی جاتی ہے۔ پھانسی کے بعد ان کی لاشیں گورستان جیل میں دفن کی جائیں۔‘‘ مولانا یحییٰ علی کا نورانی چہرہ فیصلہ سن کر کچھ اور بھی روشن ہوگیا۔ سارے مقدمات کے دوران آیات قرآنی زبان پر رہیں فرمانے لگے اگر ہفت اقلیم کی بادشاہت بھی مل جاتی تو اتنی خوشی نہ ہوتی جتنی اس سزا (شہادت ) سے ہوئی ہے۔ جج نے مولوی محمد جعفر صاحب کو نفرت امیز نگاہوں سے مخاطب کر کے کہا ’’میں تمہیں پھانسی پر لٹکتا دیکھ کر بہت خوش ہوں گا تم نے اپنی ساری ذہانت اور لیاقت سرکار کے خلاف استعمال کی ہے۔‘‘ مولوی صاحب نے بڑے سکون سے جواب دیا ’’جان لینا اور دینا اللہ کا کام ہے وہ اس بات پر قادر ہے کہ میرے مرنے سے پہلے تمہیں ہلاک کر دے۔‘ ‘مولوی صاحب کی بات الہامی