کتاب: جہاد کے مسائل - صفحہ 12
1870ء، مقدمہ سازش انبالہ 1871ء ۔ ہم ان میں سے صرف ایک مقدمہ سازش انبالہ 1864ء کی روئداد کے بعض حصے یہاں پیش کر رہے ہیں۔[1]
16دسمبر 1863ء کو مولوی محمد جعفر تھانوی رحمۃ اللہ علیہ جو کہ اپنے علاقے کے نمبردار تھے ، اپنے چار ساتھیوں سمیت گرفتار ہو کر انبالہ جیل میں پہنچے ۔ دو ماہ بعد مولانا یحییٰ علی صادق پوری (امیر مجاہدین) اپنے تین ساتھیوں سمیت گرفتار ہوکر اسی جیل میں آئے ۔ تفتیش شروع ہوئی تو پولیس کیپٹن پارسن ، ڈی آئی جی پولیس میجر بمفیلڈ اور ڈی سی انبالہ کپتان ٹائی نے مولوی محمد جعفر رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا’’سازش کی تفصیل بتاؤ۔‘‘ مولوی صاحب کا ایک ہی جواب تھا ’’مجھے علم نہیں ‘‘اس پر کپتان پارسن آپے سے باہر ہوگیا ، دیوانہ وار مولوی صاحب پر بید برسانے لگا ہر ضرب اتنی شدید تھی کہ ہاتھی پر پڑتی تو وہ بلبلا اٹھتا مگر مولوی صاحب ضرب پر ضرب سہتے رہے ۔پشت ، بازوؤں اور ٹانگوں سے خون رسنے لگا لیکن ان کے منہ سے اف تک نہ نکلی ۔ اس حیرت انگیز قوت برداشت سے پارسن باؤلا ہوگیا جوش جنوں میں پیٹتا اور چنگھاڑتا رہا ۔ مولوی صاحب مار کھاتے کھاتے زمیں پر گر پڑے ، مولوی صاحب زمین پر پڑے پڑے مار کھا رہے تھے اور چپ تھے ۔ کپتان مارتے مارتے تھک گیا ، اس کی طاقت جواب دے گئی مگر مولوی صاحب سے ایک لفظ نہ نکلوا سکا، پارسن مایوس ہو کر باہر نکلا ۔ داروغہ نے کوٹھڑی کا دروازہ بند کرکے تالا لگا دیا اور پولیس کپتان ، ڈی آئی جی اور ڈی سی تینوں اپنی ناکامی پر تلملاتے بھناتے واپس چلے گئے ۔ مولوی صاحب کو اندازہ ہوگیا کہ یہ لوگ اب انہیں زندہ نہیں چھوڑیں گے ، مولوی صاحب کے ذمہ رمضان کے کچھ روزے باقی تھے وہ رکھنے شروع کر دیئے۔
اگلے روز پارسن پھر آدھمکا اور مشق ستم شروع کر دی ، کچھ دیر کے بعد مولوی صاحب کو ڈی سی کے بنگلے میں لے گیا ۔ وہاں ڈی سی کے علاوہ ڈی آئی جی بھی موجود تھا ، ڈی سی کہنے لگا ’’مولوی صاحب تم بڑے سمجھدار آدمی ہو ، اپنے علاقے کی ممتاز شخصیت ہو ، ہم تحریری وعدہ کرتے ہیں اگر جہاد میں شریک دوسرے لوگوں کے متعلق بتا دو تو ہم تمہیں وعدہ معاف بنا کر رہا کر دیں گے اور اعلیٰ منصب بھی دیں گے۔‘‘ مولوی صاحب نے بلا تامل یہ پیشکش ٹھکرا دی اور اپنا ہی مؤقف دہرایا ’’مجھے معلوم نہیں‘‘ پارسن مولوی صاحب کو بنگلے کے ایک الگ کمرے میں لے گیا ، جہاں پولیس کے چار پانچ نوجوان متتظر بیٹھے تھے۔ پارسن کمرے میں داخل ہوتے ہی چیخا ’’اسے پکڑ لو …‘‘ وہ خون خوار بھیڑیوں کی طرح جھپٹے اور مولوی صاحب کو اوندھے منہ فرش پر دے ٹپکا اور اس بے رحمی سے پیٹا کہ خدا کی پناہ۔
[1] مزید تفصیلات کے لئے ملاہظہ ہو ’’ہندوستان کی پہلی اسلامی تحریک‘‘از مسعود عالم ندوی رحمۃ اللہ علیہ ،’’جب ایمان کی بہار آئی‘‘ از میاں ابو الحسن علی ندوی اور ’’سید بادشاہ کا قافلہ ‘‘از آباد شاہ پوری۔