کتاب: جہاد کے مسائل - صفحہ 11
لکھوا کر اعلان کر دیا ’’خلق خدا کی ، ملک بادشاہ سلامت کا ، حکم کمپنی بہادر کا‘‘یہ صورت حال دیکھ کر حضرت شاہ عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ نے ہندوستان کے دار الحرب ہونے کا فتویٰ جاری کر دیا جس کے نتیجے میں 1826ء میں تحریک شہیدین کا آغاز ہوا جس کا انجام 6مئی 1831ء کو بالا کوٹ میں بڑے بڑی علماء ، فضلاء اور مشائخ کی شہادت کی صورت میں نکلا ۔ بظاہر ناکامی کے باوجود سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ کی لگائی ہوئی آگ پورے برصغیر میں سلگ رہی تھی۔ چنانچہ 1857ء کی ایک صبح جب انگریزوں نے سلطنت مغلیہ کا چراغ گل کر کے بہادر شاہ ظفر کو جلا وطن کر دیا ۔ علماء ، فضلاء اور مشائخ انگریزوں کی بربریت کا نشانہ بنے ، جابجا پھانسیاں گاڑی گئیں تو سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ کی سلگائی ہوئی آگ پورے ہندوستان میں ’’تحریک آزادی‘‘کی شکل میں بھڑک اٹھی۔ تحریک آزادی کا سفر شروع ہوا تو اس میں ہندو بھی شریک تھے لیکن قائدانہ کردار مسلمانوں کا ہی تھا جو اس تحریک میں جہاد فی سبیل اللہ کے جذبہ سے کام کر رہے تھے ۔ خصوصاً تحریک شہیدین کے فیض یافتگان کا کردار بڑا سرفروشانہ تھا۔ تحریک آزادی ناکام ہوئی تو انگریزوں نے ہندوستان پر تادیر سامراجی مسلط قاتم رکھنے کے لئے دو طرح کے اقدام کئے ۔اولاً : جہاد ، جو کہ مسلمانوں کے لئے جسم میں خون کی حیثیت رکھتا تھا ، کا تصور ختم کرنے کے لئے اپنے قدیم وفادار خاندان کے ’’گل سر سبد‘‘مرزا غلام احمد قادیانی کی آبیاری کی گئی (اس کا مفصل ذکر آگے آئے گا)۔ثانیاً : مسلمانوں کو ان کے قائدانہ کردار کی سزا دینے کے لئے زندگی کے ہر میدان میں پیچھے رکھنے کا فیصلہ کیا گیا چنانچہ کلیدی عہدوں سے انہیں ہمیشہ کے لئے الگ کر دیا گیا ، ان پر ہر طرح سے معاش کے دروازے بند کر دیئے گئے ، ان کی جائیدادیں ضبط کر لی گئیں ، ان اوقاف اور جائیدادوں کو ضبط کر لیا گیا جن سے ان کے مدارس چلتے تھے ۔ مجاہدین پر مقدمات قائم کر کے ان پر مصائب و آلام کے پہاڑ توڑ دیئے گئے ، انہیں طرح طرح سے ذلیل ورسواء کیا گیا۔[1] تاکہ آئندہ کوئی شخص آزادی کا خواب دیکھنے کی جرات نہ کر سکے ۔ ان مظالم کی تفصیل بڑی لرزہ خیز اور روح فرسا ہے۔ کتاب ہذا کے ضمیمہ میں ان مظالم کی چند جھلکیاں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔
انگریزوں نے جن علماء ، فضلاء اور مجاہدین پر مقدمے قائم کئے ا ن کی روئداد بڑی ایمان پرور بھی ہے اور روح فرسا بھی ۔ پانچ مقدمہ ہائے سازش ان سب میں زیادم مشہور ہیں ۔ مقدمہ سازش انبالہ 1864ء، مقدمہ سازش پٹنہ 1864ء ، مقدمہ سازش راجہ محل1870ء ، مقدمہ سازش مالوہ
[1] انگریزوں نے سلطان ٹیپو کی توہین اور ہتک کرنے کے لئے اپنے کتوں کے نام ’’ٹیپ ٹیپ‘‘ رکھے ۔ جس کے دیکھا دیکھی دیسی صاحب بہادروں نے بھی اپنے کتوں کے نام ’’ٹیپ ٹیپ‘‘ رکھنے شروع کر دیئے ۔ سلطان ٹیپو کے جری اور بہادر وزیر جنگ جسے ’’خانسامان‘‘ کہا جاتا ہے ، کا لفظ انگریزوں نے اپنے باورچیوں کے لئے استعمال کیا اور بوقت شہادت سلطان ٹیپو نے جو وردی پہن رکھی تھی اس طرز کے کپڑے اپنے اردلیوں کو پہنائے۔