کتاب: جہاد کے مسائل - صفحہ 10
ہارون الرشید رحمۃ اللہ علیہ (170ہجری تا 193ہجری )نے ایک مرتبہ عظیم محدث ابو معاویہ رحمۃ اللہ علیہ سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث سنی ’’میری خواہش ہے کہ میں اللہ کی راہ میں جہاد کروں اور مارا جاؤں، پھر جہاد کروں پھر مارا جاؤں ، پھر جہاد کروں اور پھر مارا جاؤں ‘‘(مسلم)حدیث سن کر ہارون الرشید اتنا رویا کہ ہچکی بندھ گئی اور اس کے بعد ساری زندگی کے لئے معمول بنا لیا کہ ایک سال حج کے لئے جاتا اور ایک سال جہاد میں شریک ہوتا۔[1]
قرآن مجید کی تعلیمات، حیات طیبہ کی ترغیبات اور قرون اولیٰ کی پاکباز ہستیوں کے طرز عمل نے مسلمانوں کے اندر جہاد اور شہادت کا وہ جذبہ اور ولولہ پیدا کر دیا کہ ہر زمانے میں مجاہدین کے محیر العقول کارنامے کبھی دنیا کے اس خطے میں کبھی دنیا کے اس خطے میں بڑی کثرت سے ملتے ہیں ۔ برصغیر پاک وہند میں تحریک شہیدین انیسویں صدی میں جہاد فی سبیل اللہ کی بڑی ولولہ انگیز اور ایمان پرور تحریک تھی جس نے قرون اولیٰ کی یادیں تازہ کردیں۔
1612ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی تاجروں کے بھیس میں برصغیر ہند میں وارد ہوئے اور آتے ہی برصغیر پر اپنا تسلط قائم کرنے کے لئے عیارانہ چالوں اور مکارانہ سازشوں کا جال پھیلانا شروع کر دیا ۔ 1668ء تک ہندوستان کی تینوں اہم بندرگاہوں کلکتہ ، بمبئی اور مدارس پر ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنا قبضہ جما لیا۔ ہندوستان پر انگریزوں کے پھیلتے ہوئے منحوس سایوں کو ہندوستان کی دو عبقری شخصیتوں نے بھانپ لیا اور بنگال کے حکمران سراج الدولہ نے ثانیا میسور کے حاکم حیدر علی نے ، سراج الدولہ کو 1707ء میں جنگ پلاسی میں شکست دے کر انگریزوں نے سارے ہندوستان پر اپنے تسلط کا راستہ ہموار کر لیا ۔ 1799ء میں سرنگا پٹم کے مقام پر حیدر علی کے بیٹے شجاعت اور بسالت کے پیکر سلطان ٹیپو کو شہید کیا گیا تو انگریز جنرل نے سلطان کی نعش پر کھڑے ہو کر بڑی مسرت سے یہ الفاظ کہے ’’آج کے بعد ہندوستان ہمارا ہے۔‘‘ [2] چنانچہ 1803ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے نمائندہ نے بادشاہ سے ملکی انتظام کا پروانہ بزور
[1] تاریخ اسلام از معین الدین ، حصہ سوم ، ص 126
[2] تاریخ ندوۃ العلماء از مولوی محمد اسحاق جلیس رحمۃ اللہ علیہ ، حصہ اول ، ص34