کتاب: جھوٹی بشارتیں - صفحہ 87
5۔جھگڑنے والوں کے درمیان صلح کروانا۔ اے علی کرم اللہ وجھہ[1]نے فرمایا:اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !یہ سب کام کرنا کیسے ممکن ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’کیا تم نہیں جانتے کہ تین دفعہ سورۃالاخلاص پڑھنا پورے قرآن پڑھنے کے برابر ہے۔ اور چاردفعہ سورۃ الفاتحہ پڑھنا چارہزار درہم صدقہ کرنے کے برابر ہے۔اور دس مرتبہ لا الہ الا ا للّٰه وحدہ لا شریک لہ،لہ الملک ولہ الحمد یحی و یمیت وھو علی کل شی قدیر پڑھنا کعبہ شریف کی زیارت کرنے کے برابر ہے۔اور ’’لاحول ولا قوۃ إلا با للّٰه العلي العظیم‘‘ دس بار کہنے سے آپ کا ٹھکانہ جنت میں محفوظ کردیا جائے گا۔ اوردس مرتبہ استغفر ا للّٰه العظیم الذی لا الہ الا ھو الحی القیوم پڑھنا دوجھگڑا کرنے والوں کے درمیان صلح کرنے کے برابر ہے۔ فضیلۃ الشیخ !برائے مہربانی اس حدیث کی سند کے بارے میں وضاحت کر دیں کہ کیا یہ حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے؟ جواب:اس حدیث کی کوئی حقیقت نہیں بلکہ یہ ان موضوع احادیث میں سے ہے جو بعض شیعوں نے گھڑکر لوگوں میں پھیلائی ہے۔جیساکہ اس کے بارے میں ائمہ حدیث اس سے پہلے آگاہ کر چکے ہیں ۔ وبا للّٰه التوفیق،وصلی ا للّٰه علی نبینا محمد وآلہ وصحبہ وسلم۔ اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء[2] ٭ صدر: عبدالعزیز بن باز ٭ نائب صدر: عبدالرزاق عفیفی
[1] مسئلہ: علی رضی اللہ عنہ کے لیے (کرم اللہ وجھہ ) یا ( علیہ السلام)کہنے کاکیا حکم ہے؟ جواب:علی رضی اللہ عنہ کے لیے یہ الفاظ خاص کرنا جائز نہیں بلکہ ان کے لیے وہی الفاظ استعمال کرنے چاہیں جو دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں ۔جیسے ( رضی اللہ عنہ ) یا ( رحمۃ اللہ علیہ ) ۔ کیونکہ ان کے لیے یہ الفاظ خاص کرنے کی قرآن و سنت سے کوئی دلیل نہیں ملتی ۔اس لیے ان کے ساتھ وہی الفاظ استعمال کرنے چاہیں جو دوسرے خلفاء راشدین کے لیے کیے جاتے ہیں ۔ اور اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیہ والافتاء نے یہ فتوی دیا: علی بن ابی طالب کے ساتھ کرم اللہ وجھہ لگانا شیعوں کے غلو میں سے ہے۔کہا جاتا ہے کہ انہوں نے کبھی کسی کے ستر نہیں کو دیکھا اور نہ ہی انہوں نے کبھی کسی بت کو سجدہ کیا۔لیکن یہ بات صرف علی رضی اللہ عنہ کے لیے خاص نہیں بلکہ دوسرے صحابہ جو اسلام پر پیدا ہوئے ہیں ‘انہوں نے بھی کبھی کسی بت کو سجدہ نہیں کیا۔ [اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیہ والافتاء ۔فتوی نمبر ج/3ص289/3627] [2] [مجموع فتاوی سماحۃ الشیخ عبدالعزیزی بن باز ج/3ص1110][فتوی نمبر 9604]