کتاب: جھوٹی بشارتیں - صفحہ 61
یہاں بھی وجوب کے انکار کرنے کے الفاظ نہیں ہیں ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں سب سے فصیح اللسان تھے؛ اور سب لوگوں سے بڑھ کر علم والے تھے۔آپ یہ بھی فرما سکتے تھے کہ :جب نماز کا انکار کرتے ہوئے اسے ترک کردے ‘ یا پھر ’’نماز کے وجوب کا انکار کرنے والا کافر ہے‘‘۔کوئی چیز آپ کے لیے یہ کلمات کہنے میں مانع نہیں ہوسکتی تھی جب کہ اس کا حکم بھی واضح ہوجاتا۔لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ترک نماز پر کفر کا حکم لگایا ہے ۔آپ کا یہ فرمانا کہ: ((العھد الذی بیننا وبینھم الصلاۃ فمن ترکھا فقد کفر۔)) ’’ہمارے اور کافروں کے درمیان عہد صرف نماز کا ہے،جس نے نماز چھوڑ دی اس نے کفر کیا۔‘‘ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ فقط نماز کو جان بوجھ کر چھوڑنا‘خواہ سستی سے ہو [یاکسی وجہ سے] ‘کفر اکبر اور اسلام سے خارج کرنے والے امور میں سے ہے۔ہم ان امور سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں ۔ لہذا کسی بھی مسلمان عورت کے لیے تارک ِ نماز خاوند کے ساتھ رہنا جائز نہیں یہاں تک کہ وہ توبہ کر لے۔مشہور تابعی شقیق بن عبداللہ فرماتے ہیں :’’صحابہ کرام نماز کے علاوہ کسی اور عمل کے چھوڑنے کو کفر نہیں سمجھتے تھے۔‘‘[1] تارک نماز کے کفر پر صحابہ کرام کا اجماع نقل کیا گیا ہے۔ اس میں کسی نے یہ شرط ذکر نہیں کی کہ وہ نماز کے واجب ہونے کا منکر ہو؛ یا اس کی فرضیت کا انکار کرتا ہو۔ جوکوئی اس کے وجوب کا قائل نہیں وہ تمام علما ء کے نزدیک کفر اکبر کا مرتکب ہے ۔چاہے وہ نماز باجماعت ہی ادا کیوں نہ کرتا ہو۔اس لیے کہ جب اس نے نماز کے واجب ہونے کا انکار کیا تو وہ اس وقت کافر ہوگیا۔ اسی طرح جو شخص زکواۃ کے واجب ہونے کا انکار کرے ‘ یا رمضان کے روزے واجب ہونے کا اور جو کوئی استطاعت کے باوجود حج کے وجوب کا منکر ہو وہ بھی تمام علماء کے نزدیک کافر ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی عافیت میں رکھے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص کہے: زناحلال ہے ‘یاشراب حلال ہے ؛ قوم لوط کا عمل حلال ہے؛ اوروالدین کی نافرمانی اور سود کو حلال سمجھتا ہے ؛ تو ایسا شخص بھی باجماع امت کافر ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے عافیت کی دعا کرتے ہیں کیونکہ اس نے اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال کر دیا ۔لیکن جو ان باتوں کے حکم سے ناواقف ہو تو اس کو آگاہ کرنا واجب ہے ۔اگر پھر بھی وہ وجوب کا انکاری رہا تو وہ کفر اکبر کا مرتکب ہو گا۔ وا للّٰه ولی التوفیق،وصلی ا للّٰه علی نبینا محمد وآلہ وصحبہ وسلم۔
[1] [سنن ترمذی]