کتاب: جھوٹی بشارتیں - صفحہ 59
﴿احْشُرُوا الَّذِیْنَ ظَلَمُوا وَأَزْوَاجَہُمْ﴾[الصافات:22] ’’جمع کرو ظالموں کو اور ان کے ہم راہیوں کو[اور انہیں دوزخ کی راہ دکھا دو]۔‘‘ جس نے نماز کو ریاست اور حکومت کی وجہ سے چھوڑا وہ قیامت کے دن فرعون کے ساتھ اٹھایا جائے گا؛ کیونکہ فرعون نے موسیٰ علیہ السلام سے دشمنی اپنی حکومت پر فخر کی وجہ سے کی ۔اور وہ بہت بڑا بد نصیب قرار پایا؛اس نے بہت بڑا خسارہ اٹھایا۔اور آگ میں اپنا ٹھکانا بنا لیا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :﴿ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَاب﴾[غافر :46] ’’(فرمان ہو گا کہ)فرعونیوں کو سخت ترین عذاب میں ڈالو۔‘‘ جس نے نماز کو وزارت اور نوکری کی بنا پر ترک کیا وہ قیامت کے دن ہامان کے ساتھ اٹھایا جائے گا ۔اور جس نے نماز کومال کی محبت و شہوت اور نعمتوں کی فروانی کی وجہ سے ترک کیا وہ قارون کے ساتھ اٹھایا جائیگا ۔ جسے اللہ تعالیٰنے بہت زیادہ مال سے نوازاتھا لیکن اس نے شکر گزاری کی بجائے تکبر اور نافرمانی کی تو اللہ تعالیٰ نے اسے اس کے گھر سمیت زمین میں دھنسا دیا۔پس ایسا انسان قارون کے مشابہ ہوگا‘ اور وہ روز قیامت اسی کے ساتھ جہنم میں ڈالا جائے گا۔ جس نے نماز کو خرید وفروخت اور دنیا کی کمائی کی وجہ سے ترک کیا تو ابی بن خلف کے مشابہ ہوگا‘- جو مکہ کا بہت بڑا تاجر تھا -۔اور اس کے ساتھ جہنم کی آگ میں ڈالا جائے گا۔ ہم کافروں سے اور انکے اعمال سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرتے ہیں ۔ ان تمام باتوں سے مقصود یہ کہ نماز کا معاملہ بہت بڑی اہمیت کا ہے۔جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( رأس الأمر الاِسلام۔وعمودہ الصلاۃ وذروۃ سنامہ الجھاد فی سبیل اللّٰہ۔))۔[1] ’’ اس دین کی جڑ اسلام ہے، نماز اس کا ستون ہے ‘ اور اسکی ریڑھ کی ہڈی جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ ‘‘ اور ایک جگہ اور فرمایا: ((العھد الذی بیننا وبینھم الصلاۃ فمن ترکھا فقد کفر۔))[2] ’’ہمارے اور کافروں کے درمیان عہد صرف نماز کا ہے۔جس نے نماز چھوڑ دی اس نے کفر کیا۔‘‘ اور فرمایا: ((بین الرجل و بین الشرک والکفر ترک الصلاۃ۔))[3] ’’مسلمان اور کفر و شرک کے درمیان فرق کرنے والی چیز نماز ہے۔‘‘ یہ انتہائی اہم اور خطرناک معاملہ ہے۔ جب ہم لوگوں کے احوال کی طرف نظر دوڑاتے ہیں تو…لا حول ولا
[1] [ ترمذی ،باب الایمان حدیث نمبر 2541،مسند احمد ج /5حدیث نمبر231] [2] [احمد ج/5حدیث نمبر346،ترمذی حدیث نمبر2545،نسائی حدیث نمبر459،ابن ماجہ ح1079،البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو صحیح کہاہے۔دیکھیے صحیح الجامع] [3] [ صحیح مسلم حدیث نمبر 86،احمد ج /3حدیث نمبر389]