کتاب: جھوٹی بشارتیں - صفحہ 53
’’مجھے نمازیوں کو قتل کرنے سے منع کیا گیا ہے ‘‘۔ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جو بے نمازی ہے اسے قتل کر دیا جائے۔ 3۔اگر میاں بیوی میں سے کوئی ایک بے نمازی ہو اور توبہ نہ کرے تو ان کا نکاح کرنا جائز نہیں کیونکہ نماز کو ترک کرنا کفر ہے۔ 4۔اگر بے نمازی عورت سے شادی ہو جائے تو نکاح فسخ ہو جائے گا اور اسی طرح اگر آدمی بے نمازی ہو تب بھی نکاح فسخ ہو جائے گا۔لیکن اگر نکاح کے وقت دونوں ہی بے نمازی ہوں ‘ پھر اللہ تعالیٰ ان دونوں کو نماز کی ہدایت اور استقامت بخش دے ؛ تو ان کا نکاح صحیح ہو گا۔اور نکاح کی تجدیدکی ضرورت نہیں ہو گی؛ بالکل اسی طرح جیسے کافر میاں بیوی مشرف بہ اسلام ہو جائیں تو ان کے نکاح کی تجدید کی ضرورت نہیں الا یہ کہ کوئی شرعی عذر مانع ہو یعنی بیوی دودھ شریک بہن ہو یا وہ اس کے بیٹے یا باپ کی زوجیت میں رہ چکی ہوان حالات میں نکاح فسخ کروا دیا جائے گا۔ 5۔کسی بھی مسلمان عورت کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ تارک ِ نماز کے نکاح میں رہے۔یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ سے توبہ کر لے اور نماز کا محافظ بن جائے۔ 6۔تارکِ نماز کی توبہ کے بعد نکاح کی تجدید کروائی جائے گی ۔ 7۔اللہ تعالیٰ کی طرف سے سزا نازل ہونے کے ڈر سے بے نمازی کو گھر سے نکال دیا جائے۔ 8۔بے نمازی کو ملک بدر کر دیا جائے گا ۔اس کی اطلاع مسلمان حکمران کو پہنچائی جائے ۔شرعی اور دعوتی مصلحت کی بنا پر اسے ملک سے دربدر نہ بھی کیا جائے تو کوئی حرج نہیں شاید کہ اللہ تعالیٰ اسے ہدایت دیدے۔بعض علماء تارکِ نمازسے اس کی گمراہی اور حق سے دوری کی وجہ سے قطع تعلقی واجب سمجھتے ہیں ۔ 9۔بے نمازی کے ساتھ مجلسیں جمانا اور دلی دوستی رکھنا جائز نہیں ؛ بلکہ اس سے بچ کر رہنا چاہیے۔ 10۔اس کی دعوت قبول نہیں کی جائے گی ۔ 11۔ اس کو سلام نہیں کیا جائے گا۔ 12۔ اس کے سلام کا جواب نہیں دیا جائے گا۔ 13۔ علماء کے صحیح تر قول کے مطابق اس شخص کا ذبح کیا ہوا ذبیحہ نہیں کھایا جائے گا۔چاہے وہ نماز کے وجوب کا قائل ہولیکن صرف سستی کی بنا پر نماز نہ پڑھتا ہو ۔ 14۔ جب تک وہ نماز کا پابند نہ ہو جائے اس کا روزہ ،حج ،زکوۃ اور کوئی بھی نیک عمل قبول نہیں ہو گا۔ 15۔ تارک ِ نماز اگر مر جائے تو وہ اہل توحید میں سے شمار نہیں ہو گا۔اس لیے کہ نماز کا ترک کرنا توحید کے منافی امور میں سے ہے ۔