کتاب: جھوٹی بشارتیں - صفحہ 49
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے کہ :’’جس نے نماز میں سستی کی وہ پندرہ سزاؤں کا مستحق ہو گا ۔‘‘پھر اس نے یہ سزائیں گن کر شمار کی ہیں ۔ اس کے آخر میں اس نے اس پمفلٹ کو لوگوں میں فوٹوکاپی کروا کر تقسیم کرنے؛ پڑھنے اور پھیلانے کی رغبت دلائی اورپھر کہاہے کہ جس نے یہ نیک کام کیااس کو(یعنی اس کے لکھنے والے کو) فاتحہ [سورت فاتحہ ]پڑھ کر بخش دو۔‘‘[1] تارک نماز کی سزا کے بارے میں یہ حدیث جسے اس پمفلٹ کے لکھنے والے نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیا ہے ‘ موضوع اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر افترا پردازی ہے ۔جس کے بارے میں اہل علم حضرات پہلے وضاحت کر چکے ہیں ۔ اس پمفلٹ کو پھیلانے والا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پرجھوٹ پھیلا رہا ہے ‘ اور لوگوں کو اس کے پھیلانے اور عام کرنے کا حکم دے رہا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کے شر سے محفوظ رکھے۔ جس چیز سے اس پمفلٹ کے لکھنے والے کی بری نیت صاف ظاہر ہو رہی ہے وہ یہ ہے کہ اس نے تارک نماز کے بارے میں صحیح احادیث اور قرآنی آیات کو چھوڑ کرجھوٹی حدیث لکھ کر لوگوں میں پھیلائی ہے اور ساتھ ہی وہ ایک بدعت کو زندہ کرنیث کی دعوت بھی دے رہا ہے کہ اس نیک کام کرنے والے کے لیے فاتحہ پڑھو۔۔حالانکہ سورۃ الفاتحہ کو اس نیت سے پڑھنا بدعت ہے۔لہذا پھیلانے والے کا مقصد صرف جھوٹ پھیلانا اور نئی نئی بدعات ایجاد کرنا ہے۔ دوسری جو چیز اس پر دلالت کرتی ہے وہ اس انسان کی اس پمفلٹ کو مسلمانوں میں پھیلانے اور اس پڑھنے اور رواج دینے کے لیے اس کی انتہائی سخت حرص و کوشش ہے‘‘ ۔ پھر اس کے آخر میں حضرت شیخ حفظہ اللہ فرماتے ہیں : ’’خبردار ! اس کے دھوکہ میں نہ آئیں ‘ اور نہ ہی ایسی باتوں کو پھیلانے اور عام کرنے میں کوئی حصہ لیں ۔ اور جس کسی سے اس حرکت کا ارتکاب اس سے پہلے ہوچکا ہو ‘ اسے چاہیے کہ اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرے ‘ اور آئندہ کے لیے ایسی حرکت کا ارتکاب نہ کرے ۔
[1] [الخطب المنبریہ فی المناسبات العصریہ ج /3حدیث نمبر356]