کتاب: جھوٹی بشارتیں - صفحہ 34
اور یہ کہ:’’ یہ وصیت نامہ لوح قدر سے نقل کیا گیا ہے اور جو اسے نہیں لکھے گا اور ایک جگہ سے دوسری جگہ نہیں پھیلائے گا وہ شفاعت سے محروم ہو گا اور دنیا میں اس کا چہرہ کالا ہو جائے گا ‘‘ باطل اورحرام ہے۔ اس پمفلٹ اور اس جیسے دوسرے ان پمفلٹس کے ذریعہ لوگوں کو ڈرانا جن میں محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھا گیا ہو؛ ایسی برائی ہے جس کا انکار کرنا اور لوگوں کو اس سے آگاہ کرنا واجب ہوجاتا ہے۔ ایسے پمفلٹس (منشورات) کی تصدیق کرنا ‘ انہیں نقل کرنا اور نشر کرنا جائز نہیں ۔جو کوئی ایسے باطل پمفلٹس شائع یا نشر کرنے میں یا نقل کرنے میں شرکت کرتا ہے ‘ حقیقت میں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرجھوٹ ( باندھنے اور )پھیلانے میں شرکت کرتا ہے ۔ اس قسم کی خبر یں جس معاشرے میں پھیلائی جارہی ہوں ‘ تو یہ ان کی غفلت اور اس معاشرے کے افراد کی حق سے دوری کی دلیل ہے۔انہی افراد کے بارے میں اللہ نے مذمت کرتے ہوئے فرمایاہے: ﴿لَہُمْ قُلُوبٌ لاَّ یَفْقَہُونَ بِہَا وَلَہُمْ أَعْیُنٌ لاَّ یُبْصِرُونَ بِہَا وَلَہُمْ آذَانٌ لاَّ یَسْمَعُونَ بِہَا أُوْلَـئِکَ کَالأَنْعَامِ بَلْ ہُمْ أَضَلُّ أُوْلَـئِکَ ہُمُ الْغَافِلُونَ﴾ [الاعراف:179] ’’جن کے دل ہیں مگر نہیں سمجھتے،اور جن کی آنکھیں ایسی ہیں جن سے نہیں دیکھتے،اور جن کے کان ایسے ہیں جن سے نہیں سنتے،یہ لوگ چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ یہ ان سے بھی گئے گزرے ہیں وہی لوگ غفلت کا شکار ہیں ۔‘‘ ایسے لوگ بنظر عبرت نہ توحق کو سمجھتے ہیں ‘نہ ہی دیکھتے ہیں اور نہ سنتے ہیں کیونکہ یہ حق سے باطل کی طرف پھر چکے ہیں ۔ حق و باطل کبھی بھی جمع نہیں ہو سکتا ۔حق تو وہی ہے جو اللہ نے اپنی کتاب اور وحی کے ذریعے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے واضح کر دیا۔چاہے قرآن ہو یا حدیث یا خلفاء راشدین کا کوئی عمل۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((ترکت فیکم إن تمسکتم بہ لن تضلوا کتاب اللہ۔))[1] ’’ میں تم میں ایسی چیز چھوڑے جا رہا ہوں اگر تم اسے مضبوطی سے تھامے رکھو گے تو ہر گزگمراہ نہیں ہو گے وہ ہے کتاب اللہ۔‘‘ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا تھاکہ : ((علیکم بسنتی وسنۃ خلفاء الراشدین المھدیین من بعدی تمسکوا بہا و عضوا النواجذ ۔))[2]۔ ’’تم پر میری اور میرے بعدہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت پر عمل کرنا لازمی ہے ،تم اس سنت کو اپنی گنچلی کے دانتوں سے مضبوطی سے پکڑ لو۔‘‘ اسکے علاوہ ہم جوکچھ بھی اس آخری وقت میں فتنے،شبہات ، گمراہیاں اور غیبی امور میں جھوٹی باتیں اور علم غیب کا دعوی کرناجیسی گمراہ کن بدعتیں دیکھ رہے ہیں اپنے دین کی حفاظت کے لیے ہم پر واجب ہے کہ ان سب سے بچ کر رہیں ‘اور ان سے کلی طور پردور رہیں ۔تاکہ اس مصیبت اور خسارے سے بچ سکیں ۔ دین کو ضائع کرنا بہت ہی بڑا خسارہ ہے۔
[1] [سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ حدیث نمبر1761، صحیح الجامع حدیث نمبر 7877] [2] [سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ ج /4حدیث نمبر361]