کتاب: جھوٹی بشارتیں - صفحہ 28
اللجنۃ الدائمہ للبحوث العلمیہ والافتاء کا فتوی سوال: کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک ورق(پمفلٹ) خادم حرم نبوی شیخ احمد کی طرف منسوب ہے کہ جب وہ سونے کے لیے تیار ہوئے تو انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے درمیان کثرت سے پھیلنے والے فسادات کا ذکر کیا اور ہر جمعے 1,60,000بندوں کی کفر کی حالت میں مرنے کی خبر دی۔ اور بعض قیامت کی نشانیوں کی خبر دی اور کہا کہ وہ جلد ہی برپا ہو جائے گی۔اور انہوں نے شیخ احمدکو یہ حکم دیا کہ وہ اس وصیت نامہ کو لوگوں میں تقسیم کرے اور ساتھ ہی اسے سچا تسلیم کر کے پھیلانے والوں کیلئے بہت سے فوائد کا وعدہ کیا ۔اور جھٹلانے والوں کیلئے سخت وعید سنا ئی۔۔۔الخ‘‘اس وصیت نامہ کے بارے میں آپکی کیا رائے ہے؟ جواب:الحمد للّٰه وحدہ والصلاۃ والسلام علی رسولہ وصحبہ۔اما بعد: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی حقیقی صورت میں خواب میں دیکھنا عقلی اور شرعی طور پر ممکن ہے کیونکہ شیطان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت کو نہیں اپنا سکتا ۔جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((من رآنی فی المنام فقد رآنی۔فإن الشیطان لا یتمثل بی)) [1] ’’جس نے خواب میں مجھے دیکھا اس نے مجھے ہی دیکھا بیشکشیطان میری صورت نہیں اپنا سکتا۔‘‘ لیکن بسااوقات انسان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھنے کا جھوٹا دعویٰ کرتا ہے یا اس کا خواب جھوٹا ہوتا ہے ۔یا وہ خواب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بجائے کسی دوسرے شخص کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی صورت کے خلاف دیکھتا ہے اور شیطان اس کے دل میں وسوسہ ڈال دیتاہے کہ یہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ خادم حرم نبوی شیخ احمد کی طرف منسوب وصیت نامہ درست نہ بھی ہو تو بھی یہ وصیت نامہ افترا پردازی اوردروغ گوئی کے سوا کچھ نہیں ۔ وصیت نامہ گھڑنے والا اپنے آپ کو شیخ احمد کہنے کا دعوی کرتا ہے اور یہ دعوی بھی کرتا ہے کہ اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا۔ جبکہ شیخ احمد کے اہل وا قربا ء نے اس وصیت نامے کی شیخ احمد کی طرف نسبت کا انکار کیا ہے اور بتایاہے کہ ان کی وفات کافی عرصے پہلے ہو چکی ہے۔ اور اگر بالفرض محال اس کی نسبت کو ان کی طرف صحیح مان بھی لیا جائے تو یہ یا تو اڑتا اڑاتا خواب اور جھوٹا خیال ہے؛ یا یہ شیطان کا مکر و فریب ہے۔کیونکہ یہ وصیت نامہ قرآن و حدیث اور حقیقت کے خلاف باتوں پر مشتمل ہے ۔ حقیقت کے خلاف اس لیے ہے کہ یہ وصیت نامہ شیخ احمد کی وفات کے بعد پھیلنا شروع ہوا اور شیخ احمدکے اہل و اقارب نے اس وصیت نامہ کی طرف نسبت کا انکار کیا ہے۔
[1] [رواہ احمدج 1ح 375,361,279اور صحیح بخاری ح6994]