کتاب: جھوٹی بشارتیں - صفحہ 27
﴿وَقَاسَمَہُمَا إِنِّیْ لَکُمَا لَمِنَ النَّاصِحِیْنَ﴾[الاعراف:12] ’’اور ان دونوں کے روبروقسم کھا لی کہ بیشک میں تم دونوں کا خیر خواہ ہوں ۔‘‘ اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے نبی کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: ﴿وَلَا تُطِعْ کُلَّ حَلَّافٍ مَّہِیْن﴾[القلم 10] ’’تو کسی ایسے شخص کا کہا بھی نہ ماننا جو زیادہ قسمیں کھانے والا ہو‘‘۔ منافقین جانتے بوجھتے ہوئے بھی جھوٹ کیلئے قسمیں کھاتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے اس بات کی خبر دیتے ہوئے فرمایا: ﴿وَلَیَحْلِفَنَّ إِنْ أَرَدْنَا إِلاَّ الْحُسْنَی وَا للّٰه یَشْہَدُ إِنَّہُمْ لَکَاذِبُونَ﴾ [التوبہ107:] ’’اور وہ قسمیں کھا جائیں گے کہ بجز بھلائی کے اور ہماری نیت کچھ بھی نہ تھی اور اللہ تعالی گواہ ہے کہ وہ بالکل جھوٹے ہیں ۔‘‘ اس وصیت نامہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور اللہ تعالیٰ پر افترا پردازی کر کے اور آخر میں قسمیں کھا کر کیا وہ مسلمانوں کو دھوکہ دے دے گا؟کیا مسلمان واقعی اس کو سچا تسلیم کرکے اس کے قول کو قبول کر لیں گے؟ نہیں !ہر گز نہیں !بلکہ اس کا دینی حمیت کا اظہار کرنا بھی صرف لوگوں کو دھوکہ دینے کی غرض سے ہے۔حالانکہ وہ اس بات کو نہیں جانتا کہ فرعون ملعون نے بھی اپنی قوم کے سامنے شفقت و محبت کا اظہار کرتے ہوئے اور موسیٰ علیہ السلام سے ڈراتے ہوئے کہا: ﴿إِنِّیْ أَخَافُ أَن یُبَدِّلَ دِیْنَکُمْ أَوْ أَنْ یُّظْہِرَ فِیْ الْأَرْضِ الْفَسَادَ﴾ [غافر:[26 ’’مجھے تو ڈر ہے کہ کہیں تمہارا دین نہ بدل ڈالے یا ملک میں کوئی(بہت بڑا) فساد نہ برپا کردے‘‘۔ لہذا ہر نصیحت کرنے والااور دینی حمیت کا اظہار کرنے والا سچا نہیں ہوتا۔اہل ایمان کے لیے قرآن و حدیث میں جن منکرات و معاصی سے ڈرایا گیا ہے اور ان معاصی پر جن سزاوں کا ذکر کیا گیاوہی سچے اور کافی و شافی ہیں ۔