کتاب: جھوٹی بشارتیں - صفحہ 25
گا اور گناہ گار کے گناہ معاف کر دیے جائیں گے اور جو اس وصیت نامہ کو نہیں لکھے گا تو اللہ تعالیٰ اس کاچہرہ دنیا و آخرت میں کالا کر دے گا اور جو اس وصیت نامے کو سچاتسلیم کر لے گا وہ اللہ کے عذاب سے بچ جائے گا۔اور جو اسے جھٹلائے گا وہ کفر کرے گا ۔‘‘ یہ اس جھوٹے وصیت نامے سے لیے گئے بعض کلمات ہیں ۔جس کے گھڑنے والے نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھنے کی کوشش کی ہے جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ((من کذب علی متعمداً فلیتبوأ مقعدہ من النار))۔ [1] ’’جس نے مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ بولا اسے چاہیے کہ وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے ‘‘۔ یہ جھوٹا وصیت نامہ بہت پرانے زمانے سے چلا آرہا ہے۔سب سے پہلے یہ وصیت نامہ مصر میں 80سال پہلے رائج ہوا ۔اہل علم نے اس وصیت نامہ کے جھوٹ کو واضح دلائل سے طشت از بام کر دیا۔ان میں سے شیخ رشید رحمۃ اللہ علیہ نے اس وصیت پر بیان کرتے ہوئے کہاکہ: ’’ہم نے اس مسئلے کا جواب 1322؁ہجری میں دیا تھا اور ہمیں یاد ہے کہ جب سے ہم نے پڑھنا لکھنا شروع کیا تب سے ہم اس وصیت نامے کو سنتے آرہے ہیں جوایک ہی آدمی خادم حرم نبوی شیخ احمد کی طرف منسوب ہے اور سراسر جھوٹا ہے اور جس شخص کو دین کے بارے میں تھوڑا سا بھی علم ہو گا وہ کبھی بھی اس جھوٹے وصیت نامہ کی تصدیق نہیں کرے گا بلکہ ا س وصیت نامے کو سچا تسلیم کرنے والے ان پڑھ اور جاہل عوام ہی ہونگے۔‘‘ پھر انہوں نے اس وصیت کے بار ے میں بہت ہی لمبا اور مفید تبصرہ کیا اور اس میں تمام گھڑی ہوئی باتوں کو باطل قرار دیا۔پھر اس وصیت نامہ کو بعض مفسد اورجھوٹے لوگوں کے ہاتھ اس امن والے(سعودی عرب) ملک میں بھیجا گیا تاکہ اس قسم کے جھوٹے وصیت ناموں سے ان کو گمراہ کرنا آسان ہو جائے۔ اس کامقصد یہ تھا کہ یہاں لوگوں کے عقائد خراب کیا جائے اور ان کو کتاب وحدیث سے دور کیا جائے۔ الحمد للہ یہ توحید کا ملک ہے ا س لیے اس میں اللہ کے فضل و کرم سے اس قسم کی چیزیں رائج نہیں ہوتیں ۔لیکن پھر بھی اس وصیت نامہ میں موجود جھوٹے ثواب وعقاب سے متاثر ہو کر بعض لوگوں نے اسے عوام میں پھیلانا شروع کیا۔کیونکہ اس کے گھڑنے والے نے اس میں لکھا ہے کہ:’’ جس نے اس وصیت نامہ کے اتنے نسخے تقسیم کیے اس کو اس کا مطلوب حاصل ہو جائے گا۔ اگر گناہ گار ہو گا تو اللہ تعالیٰاس کے گناہ معاف کر دے گا۔بے روز گار کو اچھی نوکری مل جائے گی، قرض دار کا قرض ادا ہو جائیگا۔اور جس نے اس کو جھٹلایا اس کا چہرہ کالا ہو جائے گا اور وہ مختلف قسم کی سزائیں بھگتے گا۔ جب ان باتوں کو بعض لوگوں نے پڑھا تو وہ اس سے متأثر ہو گئے ۔ثواب و عقاب کی لالچ میں اس جھوٹی وصیت کو نشر کرنے لگے۔بعض علماء نے اس وصیت نامہ کا جھوٹ بیان کیا اور لوگوں کو اسے تقسیم کرنے اور سچا تسلیم کرنے سے ڈرایا۔ ان علماء میں سے ایک شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمۃ اللہ علیہ ہیں ۔ جنہوں نے اس وصیت نامہ پر بہت اچھا تبصرہ کرتے
[1] مجموع الفتاوی ورسائل ۸/۳۳۰۔