کتاب: جھوٹی بشارتیں - صفحہ 21
رب یہ میرے ساتھی ہیں ۔مجھ سے کہا جائیگا:آپ نہیں جانتے کہ آپکے بعد انہوں نے جو نئی نئی بدعتیں نکالیں ۔ اس وقت میں وہی کہوں گا جو اللہ تعالیٰ کے نیک بندے( عیسی علیہ السلام ) نے کہا:’’جب تک ان لوگوں میں رہا ان کا حال دیکھتا رہا جب تو نے مجھ کو (دنیا سے) اٹھا لیا اس کے بعد توتو ہی ان کانگران تھا اور تو ہی ہرچیز سے باخبر ہے۔‘‘[1] دوسری بات : اس وصیت نامہ کے باطل اور جھوٹا ہونے پر دوسری باتوں کے علاوہ یہ قول بھی ہے کہ: ’’جس فقیر نے اس وصیت نامہ کو لکھا تو اس کی برکت سے اللہ تعالیٰ اسے غنی کر دیگا۔اور قرض دار کا قرض ادا ہو جائے گا۔گناہ گار کی مغفرت ہو جائے گی……الخ‘‘ یہ سب سے بڑا جھوٹ اورا فترا پردازی اور دروغ گوئی ؛ پرلے درجے کی ڈھٹائی اور اللہ اور اس کے بندوں سے انتہائی بے شرمی کا مظاہرہ ہے۔کیونکہ یہ تین امورتو قرآن مجید کے لکھنے پر بھی نہیں حاصل ہوسکتے ‘ [جب تک کہ اس کی تعلیمات کے مطابق عمل نہ کیا جائے] چہ جائیکہ اس جھوٹی وصیت کے لکھنے والوں کویہ بشارت دی جا رہی ہے۔ محترم قارئین! بغیر کسی شک و شبہ کے یہ شیطان صفت انسان وصیت نامہ کے لکھنے والا لوگوں کو دھوکہ دینا چاہتا ہے تاکہ لوگوں کے دل اس میں لگے رہیں ‘ وہ اس وصیت نامہ کو لکھیں اور خیالی فضائل و مراتب پانے کی کوشش کریں ‘ اوروہ اس وصیت نامہ پرجسے کہ اس کے ایجاد کنندہ نے گناہوں کی بخشش ‘ تونگری اور قرض کی ادائیگی کا وسیلہ بتایا ہے ‘ اس پر توکل کر کے اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے اسباب کو چھوڑ دے۔ہم اللہ تعالیٰ سے شیطان مردود اور اتباع نفس کی پناہ مانگتے ہیں ۔ تیسری بات : اس خیالی شخص نے جو 14ویں صدی میں پیدا ہوا؛ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھتے ہوئے کہا ہے کہ :’’جو اس وصیت نامہ کو نہیں لکھے گا اللہ تعالیٰ اس کا چہرہ دنیا و آخرت میں کالا کر دے گا۔‘‘ یہ بھی انتہائی قبیح قسم کا جھوٹ ہے ۔ اور اس وصیت نامہ کے باطل ہونے اور اس جھوٹ کے ایجاد کنندہ کے دروغ گو ہونے پر سب سے واضح دلیل ہے ۔ کسی عاقل کے لیے کیسے یہ ممکن ہے کہ وہ چودھویں صدی میں آنے والے ایک مجہول آدمی کی بات سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ لکھے ‘ اور پھر یہ خیال کرتا رہے کہ اگر اس نے ایسا نہ کیا تو دنیا و آخرت میں اس کا منہ کالا کردیا جائے گا۔ اور جو کوئی فقیر اس کو لکھے گا وہ غنی ہوجائے گااور قرض کے بوجھ سے نجات پالے گا ‘اور اسکے گناہ معاف کردیے جائیں گے۔ سبحان اللہ ! یہ کتنا عظیم بہتان ہے۔جبکہ دلائل اورحقائق اس کے منافی ہے۔ دیکھئے !کتنے لوگوں نے اس وصیت نامے کو نہیں لکھا پھر بھی ان کے چہرے کالے نہیں ہوئے۔اور کتنے ہی لوگ ہیں جن کی صحیح تعداد کو اللہ ہی جانتا ہے‘ جنہوں نے اس وصیت نامہ کو لکھا لیکن پھر بھی وہ مقروض رہے، امیرنہ ہوئے ۔ ہم دلوں کی کجی اور گمراہی سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہیں ۔ یہ انعامات و اکرامات تو شریعت نے ان لوگوں کیلئے بھی نہیں رکھے جو اللہ تعالیٰ کی عظیم الشان کتاب قرآن مجید کو لکھتے ہیں ‘[بلکہ اس کیلئے بھی معیار عمل ہے]۔ تو پھر یہ کیسے ممکن ہو
[1] [صحیح بخاری حدیث نمبر3171 ، صحیح مسلم حدیث نمبر2860]