کتاب: جھوٹی بشارتیں - صفحہ 20
جگہ سے دوسری جگہ نقل کرے لیکن وہ قرآن پر ایمان رکھتا ہو اور اس پر عمل کرتا ہو ،وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے محروم نہیں ہو گا۔اس جھوٹے وصیت نامہ میں یہی ایک بات اس کے باطل ہونے اور اس کے ناشر کے کاذب ہونے کے لیے کافی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی ہدایت اور اس کی معرفت سے دوری ، اپنی جہالت اور کم علمی واضح کرتی ہے۔ اس وصیت نامہ میں دیگر بھی کئی ایک امور ایسے ذکر کئے گئے ہیں جو اس کے جھوٹ اور باطل ہونے پر دلالت کرتے ہیں ؛ خواہ اس وصیت نامہ کا گھڑنے والا ایک ہزار اور اس سے بھی زیادہ قسمیں کیوں نہ اٹھالے ؛ اور[خود کو سچا ظاہر کرنے کی کوشش میں ]جھوٹا ہونے کی صورت میں اپنے لیے ہر قسم کے سخت سے سخت عذاب اور تکلیف کی بد دعا کرے۔ اس کی یہ تمام قسمیں اور بد دعائیں غلط ہوں گی۔ بلکہ اللہ کی قسم ! اور پھر اللہ کی قسم ! بہت بڑا جھوٹ ؛باطل اور دروغ گوئی ہے ۔ ہم اللہ تعالیٰ کو اس کے فرشتوں کو ؛ اور اس کتاب کے پڑھنے والے تمام مسلمانوں کو گواہ بنا کر [ایسی گواہی کہ جس کے ساتھ ہم اپنے رب سے ملیں گے ‘ ہم ]کہتے ہیں کہ : ’’ یہ وصیت نامہ جھوٹ ہے ‘ اور اسے اپنی طرف سے گھڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیا گیا ہے ‘ اللہ تعالیٰ اس وصیت کے لکھنے والے کورسوا کرے اور اس کے ساتھ وہ سلوک کرے جس کا وہ مستحق ہے‘‘۔ مذکورہ بالا امور کے علاوہ بھی بہت ساری چیزیں ایسی ہیں جو اس وصیت کے جھوٹ ہونے پر شاہد ہیں : پہلی بات : اس وصیت نامہ کی یہ بات’’کہ اس ہفتہ میں [1,60000]ایک لاکھ ساٹھ ہزار آدمی مرے ہیں ‘جن میں سے کوئی بھی ایماندار نہ تھا‘‘ غیبی امور کی خبر دینا ہے۔ حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد وحی منقطع ہو گئی ۔آپ اپنی زندگی میں وحی کے بغیر غیب کی باتیں نہیں جانتے تھے تو وفات کے بعد کیسے جان سکتے ہیں ؟!! اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿قُل لاَّ أَقُولُ لَکُمْ عِندِیْ خَزَآئِنُ ا للّٰه وَلا أَعْلَمُ الْغَیْْبَ﴾ [الانعام50] ’’آپ کہہ دیجیے کہ میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ تعالیٰ کے خزانے ہیں اور نہ ہی میں غیب جانتا ہوں ۔‘‘ اور سورہ نمل میں ارشاد فرمایا: ﴿قُل لَّا یَعْلَمُ مَن فِیْ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَیْْبَ إِلَّا اللَّہ﴾ النمل65 ’’آپ فرما دیں کہ جو بھی آسمانوں اور زمین میں ہے اللہ کے سوا غیب کوئی نہیں جانتا‘‘۔ اور صحیح حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : (( یزاد رجال عن حوضي یوم القیامۃ۔فأقول:یا ربي أصحابي أصحابي‘‘ فیقال لی : إنک لا تدری ما أحدثوا بعدک۔فأقول کما قال العبد الصالح: ﴿ وَ کُنتُ عَلَیْْہِھمْ شَہِھیْداً مَّا دُمْتُ فِیْھہِمْ فَلَمَّا تَوَفَّیْْتَنِیْ کُنْتَ أَنْتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْھْہِمْ وَأَنْتَ عَلَی کُلِّ شَیْْئٍ شَہِیْدٌ﴾ [المائدہ:117 ] ’’روزِقیامت حوض کوثر پر کچھ لوگ میرے پاس آئیں گے(مگر انہیں آنے نہ دیا جائے گا)میں کہوں گا :اے میرے