کتاب: جھوٹی بشارتیں - صفحہ 19
جو بھی لوگوں کے درمیان جھوٹ پھیلائے گا اور اس کی نسبت دین کی طرف کرے گا تو اس کی توبہ صرف اعلانیہ طور پر کرنے سے ہی قبول ہو گی۔تاکہ لوگوں کو اس بات کا علم ہو جائے کہ وہ جھوٹا تھااور اس نے اپنے جھوٹ سے رجوع کر لیا ہے ۔کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ إِنَّ الَّذِیْنَ یَکْتُمُونَ مَا أَنزَلْنَا مِنَ الْبَیِّنَاتِ وَالْہُدَی مِن بَعْدِ مَا بَیَّنَّاہُ لِلنَّاسِ فِیْ الْکِتَابِ أُولَـئِکَ یَلعَنُہُمُ ا للّٰه وَیَلْعَنُہُمُ اللَّاعِنُونَ ٭إِلاَّ الَّذِیْنَ تَابُواْ وَأَصْلَحُواْ وَبَیَّنُواْ فَأُوْلَـئِکَ أَتُوبُ عَلَیْْہِمْ وَأَنَا التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ ﴾[البقرہ: 159۔160] ’’جو لوگ ہماری اتاری ہوئی دلیلوں اور ہدایت کو چھپاتے ہیں باوجودیکہ ہم اسے اپنی کتابوں میں لوگوں کے لیے بیان کر چکے ہیں ان لوگوں پر اللہ اور تمام لعنت کرنے والوں کی لعنت ہو۔مگر وہ لوگ جو توبہ کر لیں اور اصلاح کر لیں اور بیان کر دیں تو میں انکی توبہ قبول فرماتا ہوں اور میں توبہ قبول کرنے والا اور رحم و کرم کرنے والا ہوں ۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں یہ واضح کر دیا کہ جس نے حق کو چھپایا اس کی توبہ اصلاح کرنے اور حق کو بیان کرنے کے بعد ہی قبول ہو گی۔ بیشک اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے اپنے دین کو مکمل کر دیا ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول بنا کر شریعت کامل کر دی ہے ۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت وفات دی جب اس نے دین کو مکمل اور واضخ کردیا ۔ جیساکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْْکُمْ نِعْمَتِیْ﴾[المائدہ :3] ’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنا انعام بھر پور کر دیا ‘‘۔ 4) اس وصیت نامہ کو گھڑنے والا 14ویں صدی میں آ کر لوگوں کو نیا دین پیش کرنا چاہتا ہے۔وہ کہتا ہے کہ اسکی بنائی ہوئی شریعت پر عمل کرنے والا ہی جنتی ہو گا اور جھٹلانے والا جنت سے محروم ہو جائے گا؛ اور جہنم کی آگ اس کا مقدر بنے گی۔وہ اپنے گھڑے ہوئے اس وصیت نامہ کی شان قرآن سے بھی افضل و اعظم بنا دینا چاہتا ہے کیونکہ اس نے اس میں یہ بھی کہا ہے کہ’’ اس وصیت نامہ کو لکھنے والے اور ایک ملک سے دوسرے ملک اور ایک جگہ سے دوسری جگہ تک نقل کرنے والے کے لیے جنت میں ایک محل بنا دیا جائے گا۔اور ایسا نہ کرنے والا قیامت کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے محروم ہو جائے گا۔‘‘ یہ بہت بڑا جھوٹ ہے جو کہ خود اس من گھڑت وصیت نامہ کے جھوٹا ہونے کی واضح دلیل ہے ۔ یہ جھوٹ دروغ گوئی کرنے والے کی بے شرمی کی نشانی اور جھوٹ بولنے پر اس کی بیباکی کا مظاہرہ ہے۔ اس لیے کہ جو کوئی قرآن مجید لکھے ؛ اوراسے ایک ملک سے دوسرے ملک اور ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرے‘وہ بھی جب تک قرآن کے مطابق عمل نہ کرے ‘ وہ اس فضیلت کو نہیں پاسکتا۔چہ جائیکہ اس افتراء کرنے والے کی جھوٹی کہانی کے لکھنے والے اورایک ملک سے دوسرے ملک اور ایک جگہ سے دوسری جگہ نقل کرنے والے کویہ فضیلت حاصل ہو۔اگر کوئی قرآن کو نہ لکھے اور نہ اسے ایک