کتاب: جھوٹی بشارتیں - صفحہ 18
سکاجو حق سلف صالحین نے پہچانا تھااور جس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب اور ان کے بعد تابعین کرام گامزن تھے۔ 2)دوسری وجہ : نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی حق کے خلاف بات نہیں کی؛ نہ ہی اپنی زندگی میں اورنہ ہی موت کے وقت ۔ یہ وصیت نامہ کئی ایک باتوں میں کھلم کھلا آپ کی شریعت کے خلاف ہے ۔ جیساکہ آگے اس کی وضاحت آرہی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حقیقی صورت میں خواب میں دیکھنا ممکن ہے۔ اور جو کوئی خواب میں آپ کو دیکھتا ہے ‘ وہ حقیقت میں آپ کے دیدار سے شرفیاب ہوتا ہے ۔کیونکہ شیطان آپ کی صورت نہیں اپنا سکتا ؛ جیسا کہ حدیث شریف میں بھی آتا ہے ۔[1] لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھنے والے کے ایمان میں سچائی، انصاف پسندی ، دیانت داری ، امانت داری اور اس کی دین داری اور تقوی کودیکھا جائے گا۔اور اس سے یہ سوال کیا جائے گا کہ کیا اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی اپنی صورت میں دیکھا یا کسی اور کی صورت میں ؟ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث بیان کی جاتی ہے جوآپ نے اپنی زندگی میں کہی ہو اور بیان کرنے والے ثقہ ،عادل اور ضابط نہ ہوں تو ان کی اس روایت پر اعتماد نہیں کیا جاتااور نہ ہی وہ حدیث قابل حجت ہوتی ہے۔اگر وہی بات ثقہ اور ضابط راوی بیان کریں ؛لیکن ان کی روایت ان سے زیادہ ثقہ ،عادل اور ضابط راویوں کی روایت سے متضاد ہو اور ان دونوں روایتوں کے درمیان جمع کرنا ممکن نہ ہو تو ایک روایت کو منسوخ سمجھا جاتاہے ،اوروہ ناقابل عمل ٹھہرتی ہے اور اسے حدیث شاذ کہا جاتا ہے اوردوسری حدیث ناسخ قرار پاتی ہے؛ اور و ہی قابل عمل ہوتی ہے ۔البتہ ناسخ و منسو خ کی شروط پوری ہونی چاہیں ۔اور اگر ان روایات میں اس طرح بھی تطبیق ممکن نہ ہو تو پھر جس راوی کا حافظہ اور عدالت کم ہو ‘ اس کی روایت کو چھوڑ دیا جاتا ہے؛ اور اس پر حکم لگایا جاتا ہے کہ یہ روایت شاذ ہے ‘ اس پر عمل نہیں کیا جاسکتا ۔ تو پھرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کردہ ایسے وصیت نامہ کوکیسے سچ مانا جائے گانہ جس کے نقل کرنے والے کو کوئی جانتاہے؛ اور نہ ہی اس کی عدالت اور امانت کی کوئی گواہی دے سکتا ہے؟!! ایسی صورت میں اگر ایسے وصیت نامہ خلاف شریعت کوئی چیز نہ بھی ہو تب بھی یہ اس بات کا مستحق ہے کہ اسے دیوار پر دے مارا جائے ‘ اور اس کی طرف کان نہ دھرے جائیں ۔ تو پھر جب اس وصیت نامہ میں کئی ایک جھوٹ ہیں ‘ جو خود منہ سے بول کر اس کے جھوٹا ہونے کی گواہی دے رہے ہیں ‘ کہ یہ وصیت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ گھڑا گیا ہے ‘ اور اس میں ایسی باتیں ہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے حکم نہیں دیا ‘ تو اس کاکیا حال ہوگا؟؟؟؟…نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا : ’’من قال علی ما لم أقل؛ فلیتبوأ مقعدہ من النار۔‘‘ ’’جو مجھ سے وہ بات منسوب کرے جو میں نے نہیں کہی تو اسے چاہیے کہ وہ اپنا ٹھکانہ آگ میں بنا لے‘ ‘۔ اس وصیت نامہ میں اس دروغ گو نے ایسی باتیں کہی ہیں جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں فرمائی۔
[1] (( من رأني في المنام فقد رأني فإن الشیطان لا یتمثل بي ))۔’’ جس نے خواب میں مجھ دیکھا ‘یقیناً اس نے مجھے ہی دیکھا ہے ‘بیشک شیطان میں شکل نہیں اپنا سکتا ‘‘۔رواہ البخاری (۶۹۹۴) أحمد (۱/۲۷۹؛ ۳۶۱)۔