کتاب: جھوٹی بشارتیں - صفحہ 124
جب دونوں یا کوئی ایک بوڑھے ہو جوئیں تو انکے آگے اف تک نہ کہنا نہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا بلکہ ان کے ساتھ ادب و احترام سے بات چیت کرنا اور عاجزی اور محبت کے ساتھ انکے سامنے توضع کا بازو پست رکھے رکھنا اور دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار !ان پر ویسا ہی رحم کر جیسا انہوں نے میرے بچپن میں میری پرورش کی ہے۔‘‘ اور سنت میں سوائے ’’رب ارحمھما‘‘ ’’اے اللہ ان دونوں پر رحم فرما‘‘اور ’’رب اغفر لی والوالدی‘‘’’اے اللہ! مجھے اور میرے والدین کو بخش دے‘‘اور اسکے علاوہ چند دوسری دعاؤں کے کوئی اور خاص دعا وارد نہیں ہوئی۔جبکہ اس کارڈ میں جو دعائیں ذکر ہوئیں ہیں وہ سنت سے ثابت نہیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’من عمل عملا لیس علیہ امرنا فھو رد۔ ‘‘[1] ’’ جس نے ایسا کام کیا جس کے بارے میں ہمارا کوئی حکم نہیں تھاتو وہ مردود ہے یعنی باطل ہے۔‘‘ اس باب سے وہ دعائیں بھی ہیں جنہیں کسی کے لیے خاص کیا گیا ہے ‘ مگر شریعت میں ان کے خاص ہونے کی کوئی دلیل وارد نہیں ہوئی۔[لہذا ایسا کرنا بھی بدعت میں سے ہے] اس کے علاوہ اس دعا میں بہت عجیب الفاظ استعمال ہوئے ہیں جیسا کہ: ’’اللھم ھب لھم ما ضیعوا من حق ربوبیتک بما اشتغلوا بہ فی حق تربیتنا۔‘‘ ’’اے اللہ ہمارے والدین ہماری تربیت میں مصروف ہو کر تیری ربوبیت کو بھول گئے۔۔تو انہیں معاف فرما دے۔‘‘ وتجاوز عنہم ما قضوا فیہ من حق خدمتک۔‘‘ ’’تیری خدمت میں ان سے جو کمی ہوئی اس سے درگزرفرما دے۔‘‘ یہ صوفیانہ اصطلاحات کے الفاظ ہیں ۔[جوکہ بالکل بے اصل الفاظ ہیں ] کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو کسی کی خدمت کی ضرورت نہیں بلکہ اس کا تو یہ حق ہے کہ ہم اس کی عبادت کریں ۔لہذا اس کارڈ کو چھاپنا ؛ عام کرنا اور بانٹنا جائز نہیں ۔او ر ہمیں والدین کے لیے قرآن و سنت سے ثابت دعائیں ہی کرنی چاہیں ۔ وبا للّٰه التوفیق،وصلی ا للّٰه علی نبینا محمد وآلہ وصحبہ وسلم۔ اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء[2] ٭ صدر:عبدالعزیز آل شیخ ٭ رکن:عبداللہ بن غدیان ٭ رکن: صالح الفوزان
[1] [صحیح بخاری حدیث نمبر 2697، صحیح مسلم حدیث نمبر1718] [2] [فتوی نمبر 21816، ج/24ص222,223]