کتاب: جھوٹی بشارتیں - صفحہ 121
کاکہیں کوئی ذکر نہیں ۔جیساکہ کتاب(شرح الطحاویہ)اور ابن حجر کی کتاب (فتح الباری)اور امام ابی شامہ کی کتاب (نور المسرہ فی آیۃ الاسراء) اور شیخ محمد ابو شھبہ کی کتاب(الاسرائیلیات والموضوعات فی کتب التفسیر)
5 )عورتوں کے بارے میں جو کتابیں تصنیف ہوئی ہیں ان میں بھی اس حدیث کا کوئی ذکر نہیں ۔جیسا کہ ابن جوزی اور نواب صدیق حسن خان کی کتاب(حسن الاسوۃ بما ثبت من ا للّٰه ورسولہ فی النسوۃ)۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ حدیث اسی زمانے کی گھڑی ہوئی ہے کیونکہ پچھلی تمام کتابوں میں اس کا کہیں ذکر نہیں۔
وا للّٰه تعالیٰ اعلم بالصواب
فائدہ:
بعض علماء نے جھوٹی حدیث کی نشانیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ :’’روایت کرنے والا حدیث ایسے زمانے میں روایت کرے جب کہ تمام حدیثیں مستقر اور مدون ہوں ۔۔تو بحث کرنے والا حدیثیں کتابوں میں ڈھونڈیں اور اسے نہ پائے۔