کتاب: جھوٹی بشارتیں - صفحہ 114
فتوی ٰاللجنۃ الدائمہ للبحوث العلمیہ والافتاء[1] سوال: ایک سائل نے قرآنی آیات کے ساتھ خرافات و شرکیات سے بھرے ہوئے اس پمفلٹ کے بارے میں سوال کیا ہے جسے لوگ آپس میں بہت زیادہ پھیلا رہے ہیں اور اسکے بارے میں غلط عقیدہ رکھتے ہیں ؟ جواب: یہ پمفلٹ بعض قرآنی آیات اور سورتوں پر مشتمل ہے ۔ اس پمفلٹ کے تین صفحات پر مشتمل ہے ۔ جن میں قرآنی آیات اور چند سورتوں کیساتھ مصنف کے اس پمفلٹ کے بارے میں گھڑے ہوئے فوائد ہیں ۔اور اس پمفلٹ کا نام ’’حجاب الحصن الحصین ‘‘ہے۔ اوربعض لوگوں کے مطابق یہ پانچ صفحات جس میں بعض عارفین کا کلام روایت کیا گیا ہے ‘ جس میں اس حجاب اور عدنانی نبی کی برکت کے توسل سے نفع کے حصول کا ذکر ہے ۔اس کے ساتھ ہی اس نے اس پمفلٹ میں کچھ آیات بھی ذکر کی ہیں ؛ جنہیں اس نے ’’ الآیات السبع المنجیات ‘‘ سات نجات دینے والی آیات رکھا ہے ۔ یہ ایک انتہائی بری بدعت ہے ۔ اس کے باطل ہونے کی وجوہات درج ذیل ہیں : 1)اس میں نفع ونقصان حاصل کرنے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت سے توسل لیا گیا ہے ۔تاکہ جو کوئی اس حجاب کو اپنائے اسے نفع حاصل ہو یا تکلیف سے بچ سکے ۔ ایسا کرنا شرعاًمنع ہے کیونکہ یہ شرک کا ذریعہ ہے۔ 2)مصنف اور بعض عارفین کے کہنے کے مطابق اس حجاب میں جو منفعت ذکر کی گئی ہے‘ اان کے حاصل میں یہ نافع ہے۔یہ ایک تخمینی بات ہے ‘اور جہالت پر مبنی قول ہے ۔ جوکہ شریعت کے خلاف ہے اس لیے کہ یہ بھی شرک کی ایک قسم ہے۔ایسے ہی یہ عقیدہ رکھنا کہ یہ پمفلٹ ’’حصن حصین ‘‘ یعنی مضبوط پناہ گاہ ہے‘تو یہ عقیدہ باطل اور جھوٹا ہے۔کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی حفاظت کرنے والا ہے اس کے علاوہ کوئی کسی کی حفاظت نہیں کر سکتا۔ اور کوئی چیز بھی اس کے حکم کے بغیر پناہ گاہ ثابت نہیں ہوسکتی۔اور قرآن و سنت میں کوئی ایسی دلیل نہیں ہے جس سے ثابت ہوسکے کہ [اس طرح کی آیات پر مشتمل ]یہ پمفلٹ مضبوط پناہ گاہ ثابت ہوسکتا ہے ۔ 3)اس پمفلٹ کوبطور حجاب کے اپنانااور حفاظت کے لیے ہمیشہ اپنے ساتھ رکھنا گنڈے لٹکانے کی ایک قسم میں سے ہے۔اگر یہ تعویذ قرآن کے علاوہ کچھ ہو تو ایسا کرنا شرک اکبر ہے اور اللہ پر توکل کے منافی ہے اور اگر یہ تعویذ قرآن میں سے ہو تو مکروہ ہے۔اور یہ پمفلٹ قرآن کے ساتھ ساتھ اور بھی بہت سے گھڑی ہوئی باتوں پر مشتمل ہے اس لیے اس کو حفاظت کی خاطر اپنے ساتھ رکھنا جائز نہیں ۔ وصلی ا للّٰه علی نبینا محمد وآلہ وصحبہ وسلم۔
[1] [فتوی نمبر/4405 ج 1ص 92,91 بتاریخ 1/3/1402]