کتاب: جھوٹی بشارتیں - صفحہ 111
جھوٹی کہانی[1] الحمد للّٰه وحدہ ، والصلاۃ والسلام علی من لا نبی بعدہ۔اما بعد: میں نے اخبار …میں پھیلائی جانے والی اس کہانی کا مطالعہ کیا کہ ایک آدمی جس کا نام محمد المصری ہے؛اس کا خیال ہے کہ وہ بدھ کے دن بے ہوش ہو گیا اہل و اقرباء نے مردہ سمجھ کر دفنا دیا؛ لیکن وہ جمعہ کے دن قبر سے صحیح سلامت باہر نکال لیا اوراس نے قبر میں ہونے والے عجائب و غرائب دیکھے ۔۔۔الخ یہ دیکھتے ہوئے کہ بعض لوگ اس کہانی کو سچ سمجھ کر پھیلا رہے ہیں ؛ میں نے اس کہانی کے باطل اور جھوٹ ہونے کے بارے میں لوگوں کو آگاہ کرنا ضروری سمجھا۔ یہ ایک خرافات کہانی ہے ؛اسے کوئی عقل مند تسلیم نہیں کر سکتا۔ یہ کہانی محمد مصری نے یا کسی دوسرے خودگھڑی ہے جو کہ جھوٹ اور خرافات سے بھری ہوئی ہے ۔جس کے پیچھے ان کے مذموم مقاصد کارفرما ہیں ۔اس کہانی کے جھوٹا ہونے کی مندرجہ ذیل وجوہات ہیں : 1)٭یہ بات تو سب پر ظاہر ہے کہ جو کوئی اپنے اہل خانہ کی باتیں اور ڈاکٹر کی باتیں سن رہا ہو‘ اور جنازہ کے ساتھ چلنے والوں کی باتیں سن اور سمجھ رہا ہو؛ اس کی زندگی کسی پر مخفی نہیں ہوتی؛ نہ ڈاکٹر پر اور نہ ہی کسی دوسرے پر جو کہ اسے دیکھ رہے ہوتے ہیں یا اسے الٹ پلٹ رہے ہوتے ہیں ۔ 2)٭اوروہ کیسا بے ہوش تھا جو اپنے گرد وپیش ہونے والی ساری باتیں جانتا تھا!جیسا کہ اس کی باتوں سے ظاہر ہے۔ 3)٭یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ جس کسی کو ایسی تنگ (اور بند) جگہ پر بند کردیا جائے [جہاں سانس لینا بھی ممکن نہ ہو] تووہ اتنی لمبی مدت زندہ نہیں رہ سکتا۔ 4)٭یہ بات واضح ہے کہ قبر کے فرشتے زندہ انسان کے پاس حساب و کتاب کے لیے نہیں آتے بلکہ مردوں کے پاس ہی آتے ہیں ‘یہی اللہ تعالیٰ کا قانون ہے۔ وہ اللہ کے حکم سے مردہ کے پاس سوال کرنے کے لیے آتے ہیں ۔ اور اللہ تعالیٰ کو پتہ ہے کہ کون زندہ ہے اور کون مردہ ہے ؟ وہی مردہ کے پاس فرشتوں کو سوال کرنے کے لیے بھیجتا ہے ۔ 5)٭اس انسان نے فرشتوں کی جو ہیئت بتائی ہے ‘ اس کے مطابق وہ دو فرشتے نہیں بلکہ دو انسان تھے۔ 6)٭ قبر میں فرشتے مردہ کی نیکیاں اور برائیاں نہیں گنواتے بلکہ وہ تو تین سوال کرتے ہیں کہ تیرا رب کون ہے؟ تیرا نبی کون ہے؟ اور تیرا دین کیا ہے؟ اگر جواب صحیح ہو تو قبر میں جنت کی نعمتیں پاکر کامیاب ہو جاتا ہے۔ اور اگر غلط جواب دیے تو مبتلائے عذاب ہو جاتا ہے۔۔۔
[1] [مجلہ دعوہ ۔مجلہ نمبر 866،بتاریخ 1403/1/15 نیزدیکھیے : مجموع فتاوی و مقالات متنوعہ ج /4ص141]