کتاب: جھوٹی بشارتیں - صفحہ 10
بے بنیاد اورجھوٹی خبریں پھیلانے کا مقصد
علامہ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ ان گمراہ کن خبروں کے متعلق اپنے خطبہ میں فرماتے ہیں: [1]
’’اس طرح کی خبریں پھیلانے کامقصد لوگوں کو کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ہٹا کر جھوٹی خبروں ،جھوٹی کہانیوں اور خرافات کی طرف لگانا ہے۔اور جب [یہ لوگ]دیکھتے ہیں ایک خبر کو سچا تسلیم کر لیا گیا ہے تودروغ گو لوگ کوئی دوسری خبر گھڑ لیتے ہیں تاکہ لوگ کتاب و سنت سے دور ہو جائیں اور پھر ان کے عقیدہ کو خراب کرناآسان ہو جائے۔ جب تک مسلمان کتاب اللہاور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تھامے رکھیں گے کوئی انہیں کبھی گمراہ نہیں کر سکے گا۔اور جب وہ کتاب و سنت کو چھوڑ کر خرافات، کہانیوں اور شیطانی خوابوں کو سچا تسلیم کرنے لگ جائیں گے تو انہیں گمراہ کرنا بہت آسان ہو جائے گا۔‘‘
مسلمانوں کا جھوٹی خبروں کے متعلق صحیح موقف
علماء سے ان خوابوں وخبروں کے صحیح ہونے اور دینی امور کے متعلق سوال کرنا:
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿ فَسْئَلُواْ أَہْلَ الذِّکْرِ إِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ﴾[النحل:43]
’’پس اگر تم نہیں جانتے تو اہل علم سے دریافت کر لو‘‘۔
اس آیت سے ظاہر ہوا کہ علم مخصوص علماء سے ہی لیا جا سکتا ہے ۔کیونکہ اللہ تعالیٰ نے علماء کو انبیاء علیہم السلام کا وارث بنایا ہے۔دینی معاملات میں کتابیں ہی نہیں بلکہ علماء،انبیاء کے بعد مصدرہیں نہ کہ جاہل اور مفسد لوگ ۔اس لیے علماء سے پوچھے بغیر کسی بھی کتاب سے (اپنی پسند کے) فتاوی،احادیث یا نصیحتیں پھیلاناجائز نہیں ۔جس طرح جیسے دوائیوں کو ڈاکٹر سے پوچھے بغیر استعمال کرنا صحیح نہیں کیونکہ اس کے غلط استعمال سے نقصان پہنچنے کا ڈر ہے ۔علمی مسائل تو پھربدرجہ اولی ہیں ۔کیونکہ ہو سکتا ہے کہ جاہل دینی کتابوں سے وہ بات بیان کرے جو باطل اور گمراہ کن ہو؛یا وہ ایسی منسوخ بات بیان کر ے جس پر عمل کرنا ہی جائز نہ ہو؛یا وہ کسی ایسی مشابہ بات کو بیان کرے جس میں تفصیل بیان کرنے کی ضرورت ہو۔اور بات بیان کرنے والا لاعلم ہو۔ ایسا کرنے سے بات کرنے والا بھی گمراہ ہو جائے گا اور اپنے ساتھ دوسروں کو بھی گمراہ کرے گا۔بھلا وہ نیک نیت اور اچھے ارادے سے ہی کیوں نہ بیان کر رہا ہو۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
[1] [خطب منبریہ ج/1ص311]