کتاب: جھوٹ کی سنگینی اور اس کی اقسام - صفحہ 98
حالانکہ انہوں نے ایسی کوئی بات فرمائی نہیں ہوتی۔ [1] حافظ ابن کثیر نے تحریر کیا ہے، کہ شرعی دلیل کے بغیر دین میں بدعت جاری کرنے والا بھی اس میں داخل ہے۔[2] اسی طرح کتاب و سنت کے خلاف فتویٰ دینے والا بھی اس میں داخل ہے۔ اسی بنا پر امام ابو نضرہ فرماتے ہیں :’’سورۃ النحل کی اس آیت کے سننے کے بعد سے لے کر آج تک ،میں فتوی دینے سے خوف زدہ ہوں ۔‘‘ [3] امام مالک اور بعض دیگر علماء اجتہادی مسائل کے بارے میں اس بات کو ناپسند کرتے تھے ، کہ فتویٰ دینے والا کہے: ’’یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے۔‘‘ ان کے نزدیک یہ بات صرف اسی صورت میں کہی جائے ، جب پیش آمدہ مسئلہ میں حکم نص سے ثابت ہو ۔ اجتہادی مسائل میں مفتی یہ کہے : ’’میں اس کو ناپسند کرتا ہوں ۔‘‘ اور اسی قسم کے دیگر الفاظ بولے ، کیوں کہ اس طرح اللہ تعالیٰ پر افترا پردازی کا خدشہ دور ہوتا ہے۔ [4] علامہ شوکانی نے امام ابو نضرہ کے طرزِ عمل کے متعلق تحریر کیا ہے: ’’اللہ تعالیٰ ان پر رحم فرمائیں ۔ انہوں نے درست کہا۔ بلاشبہ یہ آیت اپنے عام الفاظ کے ساتھ ان لوگو ں پر بھی چسپاں ہوتی ہے ، جو کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت
[1] ملاحظہ ہو: تفسیر أبي السعود ۵؍۱۴۷۔۱۴۸؛ نیز ملاحظہ ہو: الکشاف ۲؍۴۳۳؛ و تفسیر ابن کثیر ۲؍۶۵۰؛ وفتح القدیر ۳؍۲۸۷۔۲۸۸؛ و تفسیر التحریر والتنویر ۱۴؍۳۱۱۔ ۳۱۲؛ وروح المعاني ۱۴؍۲۴۷۔۲۴۸؛ ونیل المرام من تفسیر آیات الأحکام ص ۲۹۶۔ [2] ملاحظہ ہو: تفسیر ابن کثیر ۲؍۶۵۰۔ [3] ملاحظہ ہو: الإکلیل في استنباط التنزیل ص ۱۶۵؛ وروح المعاني ۱۴؍۲۴۸؛ وتفسیر القاسمي ۱۰؍۱۷۳۔ [4] ملاحظہ ہو: أحکام القرآن لابن العربي ۳؍۱۱۸۳ ؛ وتفسیر القرطبي ۱۰؍۱۹۶؛ وروح المعاني ۱۴؍۲۴۸۔