کتاب: جھوٹ کی سنگینی اور اس کی اقسام - صفحہ 93
اللہ تعالیٰ کے بیٹے ہیں ]، یہودیوں نے کہا [عزیر۔ علیہ السلام ۔ اللہ تعالیٰ کے بیٹے ہیں ] اور مشرکوں نے کہا:[ فرشتے اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں ]۔ اللہ تعالیٰ ان کی جھوٹی باتوں سے بلند و بالا ہیں ۔‘‘ [1]
شیخ قاسمی لکھتے ہیں : {لَقَدْ جِئْتُمْ شَیْئًا إِدًّا}[2] : یعنی بہت بُری [بات]۔ ان کی اس غلط بات کی تردید کرتے ہوئے اور اس کی غلطی کو بیان کرتے ہوئے صیغۂ غائب[3] کے استعمال میں اللہ تعالیٰ کی شدید ناراضی کا اظہار ہے ، اور اس سے ان کی غایت درجہ کی مذمت ٹپکتی ہے اور ان [لوگوں ]پر یہ حکم چسپاں ہو تا ہے ، کہ وہ شرم اور حیا سے عاری ہونے اور جہالت میں انتہا کو پہنچے ہوئے ہیں ۔
پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے اس قول کی سنگینی کو بیان کرتے ہوئے فرمایا، کہ مقام ربانی کی توحید پر غیرت کے سبب قریب ہے ، کہ آسمان پھٹ جائیں ، زمین میں شگاف پڑ جائے اور پہاڑ پاش پاش ہو جائیں ، کیوں کہ یہ تو ایسی بات ہے ، کہ اللہ تعالیٰ اس سے پاک ہیں اور اس بات کے ثابت ہونے کا معاذ اللہ معنی یہ ہے، کہ وہ محتاج ہیں ، ان کا کوئی ہم سر ہے اور وہ فنا ہو جائیں گے۔ [4]
ج: امام مسلم نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے ، کہ انہوں نے بیان کیا :’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’جب روزِ قیامت ہو گا ، تو ایک اعلان کرنے والا اعلان کرے گا : ’’ہر گروہ کے لوگ اس کے پیچھے جائیں ، جس کی وہ عبادت کیا
[1] تفسیر السعدی ص ۵۳۵۔
[2] ترجمہ:’’بلاشبہ تم نے بہت سنگین گناہ کیا ہے۔‘‘
[3] اس میں اللہ تعالیٰ کے ارشاد: {وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا} [اور انہوں نے کہا، کہ رحمن نے بیٹا بنا یا] اور {أَنْ دَعَوْا لِلرَّحْمٰنِ وَلَدًا}[یہ کہ انہوں نے رحمن کا بیٹا ثابت کیا]کی طرف اشارہ ہے۔
[4] ملاحظہ ہو: تفسیر القاسمي ۱۱؍۱۴۸۔۱۴۹۔