کتاب: جھوٹ کی سنگینی اور اس کی اقسام - صفحہ 51
کہ اس نے وہ چیزیں تو ترک کر دی، جو رمضان کے سوا دیگر دنوں میں مباح تھیں ، لیکن اس بات کا ارتکاب کیا ، جو کہ سب دنوں میں حرام ہے۔ [1]
علامہ طیبی نے دلالتِ حدیث کو بیان کرتے ہوئے تحریر کیا ہے: ’’یہ حدیث اس بات پر دلالت کناں ہے، کہ جھوٹ تمام فواحش کی اساس اور تمام منہیات کا منبع ہے ، بلکہ وہ تو قرین شرک ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
{فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ} [2]
[بتوں کی نجاست سے اجتناب کرو اور جھوٹ سے اجتناب کرو۔]
اور یہ معلوم ہے کہ شرک اخلاص کی ضد ہے اور روزے کا اخلاص سے خصوصی تعلق ہے، اس لیے وہ اپنی ضد کی موجودگی میں اُٹھ جاتا ہے ۔[3] واللّٰه تعالیٰ اعلم‘‘[4]
(۸)
جھوٹ کا تاجروں کو فاجر بنانے والی چیزوں میں سے ہونا
جھوٹ کی قباحت اس حقیقت سے بھی واضح ہوتی ہے ، کہ وہ تاجر حضرات کو فاجر لوگوں میں شامل کرنے کے اسباب و عوامل میں سے ایک ہے۔ امام احمد اور امام حاکم نے حضرت عبدالرحمن بن شبل انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے، کہ انہوں نے بیان کیا ، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’ إِنَّ التُّجَّارَ ھُمُ الْفُجَّارُ۔‘‘
’’بلا شبہ تاجر ہی تو فاجر ہیں ۔‘‘
’’ قَالَ رَجُلٌ:’’یَا نَبِیَّ اللّٰہ! أَلَمْ یُحِلِّ اللّٰہُ الْبَیْعَ؟ ‘‘
[1] ملاحظہ ہو: مرقاۃ المفاتیح ۴؍۴۹۲؛ نیز دیکھیے: شرح الطیبي ۵؍۱۵۹۰۔
[2] سورۃ الحج؍ الآیۃ ۳۰۔
[3] یعنی ناقابل قبول قرار پاتا ہے۔
[4] شرح الطیبي ۵؍۱۵۹۰۔۱۵۹۱۔