کتاب: جھوٹ کی سنگینی اور اس کی اقسام - صفحہ 46
خصلتوں ]کی نشان دہی کرتی ہیں ، کیونکہ دین کی اساس تین چیزوں پر ہے: قول ، عمل اور نیت۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جھوٹ کے ذریعے قول کی خرابی ، خیانت کے ذریعے عمل کی خرابی اور وعدہ کی خلاف ورزی کے ذریعے نیت کی خرابی کی نشان دہی فرمائی ہے۔‘‘ [1] اسی بات کی ایک اور حکمت بیان کرتے ہوئے علامہ طیبی رقم طراز ہیں : ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ان تینوں خصلتوں کا خصوصی طور پر ذکر ا س لیے فرمایا ہے، کہ جس اختلاف پر نفاق کی بنیاد ہے ،یہ تینوں اس کو سموئے ہوئے ہیں : [او ر وہ ہے] ظاہر و باطن کا اختلاف، تو جھوٹ حقیقت کے خلاف خبر دینا ہے ، امانت کا حق یہ ہے، کہ حق والوں کو ادا کی جائے ،لیکن خیانت اس کے اُلٹ ہے اور وعدہ خلافی کا معاملہ تو واضح ہے ، اسی لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں فرمایا: (أَخْلَفَ) [یعنی خلاف ورزی کی] ۔‘‘[2] امام نووی نے حدیث شریف کے معنی بیان کرتے ہوئے تحریر کیا ہے :’’اس کا صحیح معنی یہ ہے، کہ یہ خصلتیں منافقوں کی خصلتیں ہیں ، اور ان کا حامل ان خصلتوں کے اعتبار سے منافقین کے ساتھ مشابہت رکھتا ہے اور ان کے اخلاق کے ساتھ متصف ہے ، کیونکہ نفاق باطن کے برعکس ’’ظاہر کرنا‘‘ ہے ا ور ان خصلتوں کے حامل شخص میں یہ معنی موجود ہے۔‘‘ [3] علاوہ ازیں بعض علمائے اُمت نے بیان کیا ہے، کہ نفاق کی اساس اور بنیاد جھوٹ ہے۔ حضرت حسن فرماتے ہیں :’’کہا جاتا تھا : ظاہر و باطن ، قول و عمل اور داخلی اور خارجی صورتِ حال کا باہمی اختلاف نفاق سے ہے ، اور وہ اساس جس پر نفاق کی عمارت قائم ہے، وہ جھوٹ ہے۔‘‘ [4]
[1] إحیاء علوم الدین ۳؍۱۳۴۔ [2] شرح الطیبي ۲؍۵۰۸۔ [3] شرح النووي ۲؍۴۷۔ [4] إحیاء علوم الدین ۳؍۱۳۴۔