کتاب: جھوٹ کی سنگینی اور اس کی اقسام - صفحہ 43
متعدد باتیں ہیں ، ان میں سے چار درج ذیل ہیں :
۱:آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے فرمان [کیا میں تمہیں کبیرہ گناہوں میں سے سب سے بڑے گناہ کی خبر نہ دوں ] کو تین مرتبہ دہرانا۔ علامہ عینی نے تحریر کیا ہے: ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سامع کو اچھی طرح تنبیہ کرنے کی غرض سے اس کو تین مرتبہ دہرایا ، تاکہ وہ بتلائی جانے والی بات کے لیے اپنے قلب و فہم کو حاضر کر لے۔ [1]
۲:آپ صلی اللہ علیہ وسلم [خبردار اور جھوٹی بات اور جھوٹی گواہی]فرماتے وقت ٹیک چھوڑ کر سیدھے تشریف فرما ہو گئے۔ حافظ ابن حجر نے لکھا ہے :’’اس سے یہ معلوم ہوتا ہے، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا اس قدر اہتمام کیا ، کہ اس کو بیان کرتے وقت ٹیک چھوڑ کر بیٹھ گئے اور یہ [طرزِ عمل] اس [گناہ] کی شدید حرمت او ر برائی کی سنگینی کو نمایاں کرتا ہے۔‘‘ [2]
۳:آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا [جھوٹی بات اور جھوٹی گواہی] کا ذکر فرماتے وقت، لفظ [خبردار] استعمال فرمانا۔ علامہ عینی کے بیان کے مطابق یہ لفظ کہی گئی بات کی طرف توجہ کرنے اور اس کو کما حقہ سمجھنے کی تنبیہ اور تاکید کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ [3]
۴:آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا [خبردار اور جھوٹی بات اور جھوٹی گواہی (کے الفاظ)] کو اتنی مرتبہ دہرانا، کہ راوی اپنے دل میں کہنے لگا [آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش نہ ہوں گے]۔ اس قدر تکرار کے پس منظر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصود یہ تھا ، کہ جھوٹی بات اور جھوٹی گواہی کی سنگینی سامعین کے دلوں میں جاگزیں ہو جائے۔ [4]
ج: امام مسلم اور امام ترمذی نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کے حوالے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا
[1] ملاحظہ ہو: عمدۃ القاري ۲۲؍۸۸؛ نیز ملاحظہ ہو: فتح الباري ۵؍۲۶۲۔
[2] المرجع السابق ۵؍۲۶۲؛ نیز ملاحظہ ہو: شرح النووي ۲؍۸۱۱۔
[3] ملاحظہ ہو: عمدۃ القاري ۲۲؍۸۸۔
[4] ملاحظہ ہو: فتح الباري ۱۰؍۴۱۲۔