کتاب: جھوٹ کی سنگینی اور اس کی اقسام - صفحہ 41
دونوں کی برائی کو ایک ہی جگہ واضح کیا گیا ہے۔ ایسی تین نصوص ذیل میں ملاحظہ فرمائیے: ۱:اللہ عزوجل نے فرمایا: {فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ}[1] ’’بتوں کی گندگی سے بچو ، اور قول زور سے بچو۔‘‘ ’’زور‘‘ سے مراد … جیسا کہ علامہ قرطبی نے بیان کیا ہے… باطل اور جھوٹ ہے اور اس کو [زور] اس لیے کہا جاتا ہے ، کیونکہ وہ حق سے ہٹا ہوتا ہے۔[2] اس آیت کی تفسیر میں علامہ شنقیطی رقم طراز ہیں : ’’ اس آیت کریمہ میں [اللہ تعالیٰ نے] [قول زور] سے اجتناب کا حکم دیاہے اور وہ جھوٹ اور باطل ہے۔‘‘[3] اس آیت کریمہ میں یہ بات واضح ہے ، کہ اللہ تعالیٰ نے بتوں کی پرستش کی ممانعت کے ساتھ ہی جھوٹ سے منع فرمایا ہے۔ حافظ ابن کثیر نے بیان کیا ہے : ’’یہاں [مِنْ] جنس کے بیان کے لیے ہے ، یعنی نجاست سے اجتناب کرو، اور وہ [نجاست] بت ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کو، جھوٹ کے ساتھ ملا دیا گیا ہے۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، [کہ انہوں نے فرمایا]:’’جھوٹی گواہی [إِشْرَاکٌ بِاللّٰہ] [4] کے برابر ہوئی۔‘‘ پھر انہوں نے اس آیت کو [بطورِ دلیل] پڑھا۔‘‘[5] ب: امام بخاری اور امام مسلم نے حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے ، کہ انہوں نے بیان کیا ، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ أَ لَا أُنَبِّئُکُمْ بِأَکْبَرِ الْکَبَائِرِ؟‘‘ ’’کیا میں تمہیں کبیرہ گناہوں میں سے سب سے بڑے گناہ کی خبر نہ دوں ؟‘‘
[1] سورۃ الحج ؍ الآیۃ ۳۰۔ [2] ملاحظہ ہو: تفسیر القرطبي ۱۲؍۵۵۔ [3] أضواء البیان ۵؍۶۸۹۔ [4] اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا۔ [5] تفسیر ابن کثیر ۳؍۲۴۲۔