کتاب: جھوٹ کی سنگینی اور اس کی اقسام - صفحہ 35
سے نہیں ہے۔‘‘ [1] ج: امام نووی رقم طراز ہیں : ’’اس میں اس بات کا بیان ہے، کہ جھوٹ جاہلیت اور اسلام دونوں میں قبیح ہے۔‘‘ [2] د: حافظ ابن حجر لکھتے ہیں : ’’یعنی اگر میری طرف لوگوں کے جھوٹ کی نسبت کا خدشہ نہ ہوتا ، تو میں ان [نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ] کے بارے میں جھوٹ کہتا۔ اس میں اس بات کی دلیل ہے، کہ وہ [زمانہ جاہلیت کے لوگ بھی] جھوٹ کو بُرا گردانتے تھے، اور ان لوگوں کا یہ نقطہ نظر یا تو سابقہ شریعت کی بنا پر تھا یا اپنی معاشرتی روایات کی پاس داری کرتے ہوئے تھا۔‘‘ [3] حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالیٰ نے مزید لکھا ہے، کہ ابو سفیان نے تب جھوٹ اس خدشہ کے پیش نظر نہیں چھوڑا تھا، کہ ان کے رفقاء بھر ی مجلس میں انھیں جھٹلا دیں گے ، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دشمنی میں تو وہ سب متفق تھے ۔ جھوٹ بولنے میں ان کی نگاہ میں رکاوٹ یہ تھی ، کہ وطن واپس پلٹنے پر یہ بات لوگوں کے سامنے بیان ہو گی ، تو وہ ان کی نظروں میں جھوٹے قرار پائیں گے۔ ابن اسحاق کی روایت میں اس بات کا صراحت سے بیان موجود ہے ۔ الفاظ روایت یوں ہیں : ’’ فَوَاللّٰہِ! لَوْ قَدْ کَذَبْتُ مَا رَدُّوْا عَلَيَّ ، وَلٰکِنِّيْ کُنْتُ امْرَئً ا سَیِّدًا أَتَکَرَّمُ عَنِ الْکِذْبِ۔ وَعَلِمْتُ أَنَّ أَیْسَرَ مَا فِيْ ذٰلِکَ، إِنْ أَنَاکَذَبْتُہُ ، أَنْ یَحْفَظُوْا ذٰلِکَ عَنِّيْ ، ثُمَّ یَتَحَدَّثُوْا بِيْ ، فَلَمْ أَکْذِبْہُ۔‘‘[4] ’’اللہ تعالیٰ کی قسم! اگر میں جھوٹ بولتا ، تو وہ میری تردید نہ کرتے ، لیکن
[1] المفہم ۳؍۶۰۴۔ [2] شرح النووي ۱۲؍۱۰۴۔ [3] فتح الباري ۱؍ ۳۵۔ [4] ملاحظہ ہو: المرجع السابق ۱؍۳۵۔