کتاب: جھوٹ کی سنگینی اور اس کی اقسام - صفحہ 34
تو تم اس کی تکذیب کر دینا۔‘‘ ابو سفیان بیان کرتے ہیں : ’’ فَواللّٰہِ! لَوْلَا الْحَیَائُ مِنْ أَنْ یَأْثِرُوْا عَلَيَّ کَذِبًا لَکَذَبْتُ عَنْہُ۔ ‘‘[1] ’’اللہ کی قسم!اگر مجھے اس بات کی حیا نہ ہوتی، کہ مجھ سے جھوٹ نقل کیا جائے گا ، تو میں ان [نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ]کے بارے میں جھوٹ بولتا۔‘‘ اس روایت میں یہ بات واضح ہے، کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف شدید بغض و عداوت رکھنے کے باوجودابوسفیان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کوئی جھوٹی بات نہ کہہ سکے۔ ایسا کرنے میں رکاوٹ صرف یہ تھی، کہ انہیں یہ گوارا نہ تھا، کہ لوگ ان کے بارے میں کہیں ، کہ ابو سفیان نے معزز سردار ہونے کے باوجود جھوٹ بولا۔ یہ واقعہ زمانہ جاہلیت کے لوگوں کی نگاہوں میں بھی جھوٹ کی خرابی اور قباحت کو سمجھنے کے لیے بہت کافی ہے۔ اللہ کریم حضرات محدثین پر اپنی رحمتیں نازل فرمائیں ، کہ انھوں نے شرح حدیث میں ابو سفیان رضی اللہ عنہ کے اس بیان کی خوب وضاحت کی ہے۔ ان میں سے پانچ حضرات کے اقوال ذیل میں ملاحظہ فرمائیے: ا: علامہ ابن بطال نے تحریر کیا ہے: ’’یہ بات اس حقیقت پر دلالت کرتی ہے ، کہ جھوٹ ہر اُمت میں ناپسندیدہ اور ہر ملت میں معیوب ہے۔‘‘[2] ب: علامہ قرطبی نے لکھا ہے :’’اس میں اس بات کی دلیل ہے، کہ جھوٹ جاہلیت اور اسلام [دونوں ]میں قابلِ مذمت ہے ، نیز وہ معزز لوگوں کے اخلاق میں
[1] متفق علیہ:صحیح البخاري، کتاب بدء الوحي، جزء من رقم الحدیث ۷، وباختصار، ۱؍۳۱؛ وصحیح مسلم ، کتاب الجہاد والسیر ، باب کتاب النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم إِلی ھرقل یدعوہ إلی الاسلام، جزء من الروایۃ ۷۴(۱۷۷۳)، ۳؍۱۳۹۶۔ الفاظ روایت صحیح البخاری کے ہیں۔ [2] شرح صحیح البخاري لابن بطال ۱؍۴۵۔