کتاب: جھوٹ کی سنگینی اور اس کی اقسام - صفحہ 33
(۱) جھوٹ کا زمانہ جاہلیت میں معیوب سمجھا جانا جھوٹ کی برائی اور قباحت کے دلائل میں سے ایک یہ ہے، کہ زمانہ جاہلیت کے لوگ بھی اسے معیوب سمجھتے تھے۔ ان میں سے کوئی معزز شخص اپنی طرف جھوٹ کی نسبت گوارا نہ کرتا تھا۔ یہ حقیقت اس قصہ میں نمایاں ہے ، جس کو امام بخاری اور امام مسلم نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے حوالے سے روایت کیا ہے ،کہ حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے انہیں بتلایا، کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مکتوب گرامی موصول ہونے پر شاہ روم نے ابو سفیان اور ان کے ساتھیوں [1] کو اپنے ہاں طلب کیا اور اپنے ترجمان کی وساطت سے ان سے دریافت کیا کہ:’’نبوت کا دعویٰ کرنے والے شخص کے ساتھ سب سے قریبی رشتہ داری کس کی ہے؟ ‘‘ ابو سفیان بیان کرتے ہیں : ’’میں نے کہا: ’’میں رشتہ داری میں اس کا سب سے قریبی ہوں ۔‘‘ اس[شاہ روم]نے کہا: ’’أَدْنُوْہُ مِنِّيْ، وَقَرِّبُوْا أَصْحَابَہُ ، فَاجْعَلُوْھُمْ عِنْدَ ظَھْرِہِ۔ ‘‘ ’’اس کو میرے قریب کرو، اس کے ساتھیوں کو بھی قریب کرو اور انھیں اس کے پس پشت بٹھا دو۔‘‘ پھر اس نے اپنے ترجمان سے کہا: ’’ان سے کہو: ’’ إِنِّيْ سَائِلٌ ھٰذَا عَنْ ھٰذَا الرَّجُلِ ، فَإِنْ کَذَبَنِيْ فَکَذِّبُوْہُ۔‘‘ ’’میں اس شخص سے سوال کرنے لگا ہوں ۔ اگر اس نے مجھ سے جھوٹ بولا،
[1] ابو سفیان اور ان کے ساتھی تب مسلمان نہ تھے۔