کتاب: جھوٹ کی سنگینی اور اس کی اقسام - صفحہ 201
نے مسلمانوں کو شکست دی ہے وغیرہ وغیرہ، جو کہ مشہور ہے۔ ‘‘[1] ،[2]
شیخ البانی نے اس سلسلے میں لکھا ہے: ’’ صاحب بصیرت پر یہ بات مخفی نہیں ، کہ گروہ اول کا قول ہی زیادہ راجح اور ان احادیث کے ظاہری معانی سے زیادہ مطابقت رکھتا ہے۔ دوسرے گروہ نے انہیں تعریض پر محمول کرنے کے لیے جو تأویل کی ہے، اس کی [حقیقت سے] دوری ڈھکی چھپی بات نہیں ، خصوصاً جنگ کے دوران جھوٹ کے متعلق، کہ وہ اس قدر واضح ہے، کہ اس کے بارے میں دلیل پیش کرنے کی بھی ضرورت نہیں ۔ ‘‘[3]
۴: زوجین کے درمیان جواز جھوٹ سے مراد دھوکا بازی نہیں :
میاں بیوی کے درمیان جھوٹ بولنے کی اجازت سے یہ مراد نہیں ، کہ وہ ایک دوسرے کی حق تلفی اور باہمی دھوکا دہی کی کوششوں میں لگے رہیں ۔ اس بارے میں امام نووی نے تحریر کیا ہے: ’’ شوہر کا بیوی کے لیے اور بیوی کا اس کے لیے جھوٹ بولنے سے مراد یہ ہے، کہ وہ ایک دوسرے کے لیے باہمی محبت اور اپنے ذمہ واجبات کی ادائیگی کے وعدے کا اظہار کریں ۔ اپنے واجبات کی ادائیگی میں مکرو فریب کرنے یا ناجائز حق کے حصول کی خاطر ایسا کرنے کی حرمت پر اہل اسلام کا اجماع ہے۔ واللّٰه تعالٰی أعلم۔‘‘ [4]
حافظ ابن حجر نے قلم بند کیا ہے: ’’ ان کا اس بات پر اتفاق ہے، کہ عورت اور مرد
[1] ملاحظہ ہو: المسند، رقم الحدیث ۱۲۴۰۹، ۱۹؍ ۴۰۰۔۴۰۲؛ والإحسان في تقریب صحیح ابن حبان، کتاب السیر، باب الخلافۃ والإمارۃ، ذکر ما یستحب للإمام بذل عرضہ لرعیتہ إذا کان في ذلک صلاح أحوالھم في الدین والدنیا، رقم الحدیث ۴۵۳۰، ۱۰؍۳۹۰۔ ۳۹۳؛ والسنن الکبری للإمام النسائي، کتاب السیر، الرجل یکون لہ المال عند الشرکین فیقول شیئًا یخرجہ بہ مالہ، رقم الحدیث ۸۵۹۲ ، ۸؍۳۷۔ حافظ ہیثمی نے اس کے بارے میں لکھا ہے: ’’ احمد، ابو یعلی، بزار اور طبرانی نے اس کو روایت کیا ہے، اور اس کے راویان الصحیح کے روایت کرنے والے ہیں۔ ‘‘ (مجمع الزوائد ؍۱۵۵)۔ شیخ البانی نے اس کو [صحیح] کہا ہے۔ (ملاحظہ ہو: صحیح موارد الظمآن إلی زوائد ابن حبان ۲؍۱۴۷)۔
[2] فتح الباري ۲؍۱۵۹۔
[3] سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ ۲؍۷۸۔
[4] شرح النووي ۶؍۱۵۸۔