کتاب: جھوٹ کی سنگینی اور اس کی اقسام - صفحہ 200
فرمایا: ’’ أَلْہِ النَّاسَ عَنِيْ۔‘‘ ’’ لوگوں کو مجھ سے مشغول کردیجئے۔ ‘‘ [یعنی لوگوں کی توجہ میری طرف سے ہٹا دیجیے] چنانچہ جب ان سے پوچھا جاتا: ’’ تم کون ہو؟‘‘ تو وہ جواب دیتے: ’’ حصول مقصد کے لیے جستجو کرنے والا۔ ‘‘ اور جب پوچھا جاتا: ’’ یہ آپ کے ساتھ کون ہیں ؟ ‘‘ تو فرماتے: ’’ ایک رہبر میری راہ نمائی کر رہے ہیں ۔ ‘‘[1] امام نووی کی رائے میں مذکورہ بالا تینوں صورتوں میں جھوٹ بولنے کی اجازت ہے، البتہ افضل یہی ہے، کہ تعریض سے کام چلائے۔ حافظ ابن حجر نے بھی اسی رائے کو پسند کیا ہے۔ حافظ ابن حجر تحریر کرتے ہیں : ’’ نووی نے کہا ہے: ان تین حالات میں حقیقی جھوٹ جائز ہے، البتہ تعریض سے کام لینا افضل ہے۔ ‘‘ ابن العربی نے کہا ہے: ’’ مسلمانوں پر شفقت کرتے ہوئے، ان کی حاجت کے پیش نظر، جنگ میں استثنائی طور پر جھوٹ کو نص کے ساتھ جائز قرار دیا گیا ہے اور اس میں عقل کا کچھ دخل نہیں ۔ اگر جھوٹ کی حرمت عقل کے ساتھ ہوتی، تو [کبھی بھی] حلال نہ ہوسکتا تھا۔ ‘‘ پھر حافظ رحمہ اللہ تعالیٰ تحریر کرتے ہیں : ’’ اس کی تقویت حجاج بن علاط رضی اللہ عنہ کے قصہ سے ہوتی ہے، جس کو احمد، ابن حبان اور نسائی نے انس رضی اللہ عنہ کے حوالے سے روایت کیا ہے اور حاکم نے اس کو صحیح قرار دیا ہے، کہ انہوں [حجاج رضی اللہ عنہ ] نے اہل مکہ سے اپنا مال نکالنے کی خاطر حسب مصلحت بات کہنے کی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دے دی۔ اور انہوں نے اہل مکہ کو بتلایا، کہ خیبر والوں
[1] منقول از: فتح الباري ۷؍۲۵۱؛ نیز ملاحظہ ہو: الطبقات الکبری لابن سعد ۱؍۲۳۳۔۲۳۴۔