کتاب: جھوٹ کی سنگینی اور اس کی اقسام - صفحہ 199
جھوٹ قرار دینا درست نہیں ۔ اسی طرح جنگ میں ایسے الفاظ کے ساتھ تعریض اور ابہام کرنا جائز ہے، جن کے دو معانی ہوں ، کہنے والا کا مقصود ایک معنی ہو اور سننے والا دوسرا معنی سمجھے اور یہ بھی خلاف واقعہ کسی بات کی خبر دینا نہیں ہے۔ [1] جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے سفر ہجرت کے دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں سوال کیا جاتا، تو وہ یہی طرزِ عمل اختیار فرماتے۔ امام بخاری نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے، کہ انہوں نے بیان کیا: ’’ اللہ تعالیٰ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے، تو انہوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اپنے پیچھے بٹھایا ہوا تھا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بال سفید ہو چکے تھے اور وہ [اہل مدینہ میں ] معروف تھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں سفید بال نمودار نہ ہوئے اور نہ ہی وہ [ان کے ہاں ] جانے پہچاننے جاتے تھے۔ [2] جب کوئی شخص ابوبکر رضی اللہ عنہ سے ملتا ،تو استفسار کرتا: ’’ اے ابوبکر! آپ کے آگے بیٹھا ہوا شخص کون ہے؟ ‘‘ تو وہ جواب میں فرماتے: ’’ یہ سیدھی راہ کی طرف میری راہ نمائی کرنے والے شخص ہیں ۔ ‘‘ انہوں نے بیان کیا: ’’سمجھنے والا سمجھتا، کہ ان کا خیال راستے میں راہ نمائی کرنا ہے اور ان کا مقصود راہِ خیر کی طرف ہدایت کرنا تھا۔ ‘‘[3] امام ابن سعد کی ایک روایت میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے اس جواب کا سبب بھی بیان کیا گیا ہے۔ اس روایت میں ہے، کہ بلاشبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے
[1] منقول از: شرح ابن بطال لصحیح البخاري ۸؍۸۲۔ [2] آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عمر میں حضرت صدیق رضی اللہ عنہ سے بڑے تھے، لیکن سفید بالوں کی آمد حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کے ہاں پہلے ہوئی تھی۔ علاوہ ازیں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا تجارت کے سلسلے میں اہل مدینہ کے پاس سے گزر ہوتا رہتا تھا، لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لمبے عرصہ سے مکہ مکرمہ سے اس طرف سفر نہ کیا تھا۔ (ملاحظہ ہو: فتح الباري ۷؍۲۵۰)۔ [3] صحیح البخاري، کتاب مناقب الأنصار، باب ھجرۃ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وأصحابہ إلی المدینۃ، جزء من رقم الحدیث ۳۹۱۱، ۷؍۲۴۹۔